منی بجٹ،حکومت مختلف مدات میں17فیصد ٹیکس وصول کریگی

منی بجٹ،حکومت مختلف مدات میں17فیصد ٹیکس وصول کریگی

مہنگائی کا نیا طوفان منہ کھولے کھڑا ،حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی

(تجزیہ :سلمان غنی) آئندہ ہفتہ تک آئی ایم ایف کی شرائط پر مبنی منی بجٹ آنے کے اعلان پر ابھی سے عوام کے اوسان خطا ہونا شروع ہو گئے ہیں، بظاہر تو کہا جا رہا ہے کہ منی بجٹ کے اطلاق کا بوجھ عام آدمی پر نہیں پڑے گا لیکن آئی ایم ایف سے طے شدہ شرائط کے مطابق جب بجلی کی قیمتوں میں اضافہ، مختلف مدات میں17فیصد تک مزید ٹیکس عائد ،350ارب کی ٹیکس چھوٹ ختم ، ترقیاتی پروگرام میں 200 ارب کی کمی ہو گی تو کیا مہنگائی کے طوفان سے عوام بچ پائیں گے ۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف قوم کو بتارہے ہیں کہ یکم دسمبر سے مزید قیامت خیز مہنگائی آنے والی ہے ، ڈالر کی پرواز جلتی پرتیل کا کام کر رہی ہے ، قرض ،مہنگائی ،خسارے ، ڈالر ہر چیز ریکارڈتوڑ چکی ہے مگر حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی ۔ تباہی و بربادی کے اس عمل کو روکنے کے لئے اپوزیشن کے پاس کیا پروگرام اور لائحہ عمل ہے اوروہ عوام کو بچانے کیلئے کون سے ایجنڈا پر عمل پیرا ہے ؟۔ حکومت نے مارچ میں آئی ایم ایف سے 50کروڑ قرض کے حصول کے لئے 700ارب روپے کے ٹیکسوں کی کٹوتی ختم کر کے اور نئے ٹیکس لگانے پر آمادگی ظاہر کی تھی ،چند ہفتے بعد شوکت ترین نے منصب سنبھالتے ہی آئی ایم ایف کی شرائط سے اختلاف ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ان شرائط کی منظوری دراصل معیشت کی بربادی ہے اور کہا تھا کہ وہ نئے طریقہ کار پر گامزن ہو کر ریونیو بڑھائیں گے مگر چھ ماہ بعد ہی پرانا معاہدہ بحال ہو گیا ۔ معاہد ہ کی پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد ہی آئی ایم ایف کا ایگزیکٹو بورڈ 12جنوری کو قرضہ فراہم کرے گا، ورنہ آئی ایم ایف عدم منظوری کے باعث انکار کر سکتا ہے ۔ معاہدہ کی منظوری پارلیمنٹ سے حاصل کرنا ہے ، اس لیے اب گیند پارلیمنٹ کی کورٹ میں ہے جو اسکے لئے بڑا امتحان ہو گا ۔ قرض کی شرائط کو دیکھ کر یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ ہم سود کے شیطانی چکر میں دھنستے جا رہے ہیں جس سے نکلنا وقت کے ساتھ مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے مگر حکمران اسے اپنا کارنامہ بنا کر پیش کرتے ہیں ۔ فی الحال بجٹ کی منظوری سے ایک ارب سے زائد ڈالرز کا قرضہ مل جائے گا ، لیکن اس کا بوجھ عام آدمی کو برداشت کرنا پڑے گا ۔ آئی ایم ایف کی ہدایات کے مطابق دسمبر تک عالمی ادارے کے اجلاس سے قبل اس قانون کو حتمی شکل دینا لازم ہے جو حکومت کیے لیے بڑا امتحان ہوگا ۔ پاکستان کی بد قسمتی یہ رہی ہے کہ ہماری معیشت آئی ایم ایف ودیگراداروں سے قرضوں کی فراہمی کا راستہ کھولتی ہے ۔ کیا پاکستان کی پارلیمنٹ آئی ایم ایف سے معاہدے کی منظوری کے وقت سوچے گی کہ آخر کب تک ہم اس صورتحال سے دوچار رہیں گے ۔ معاشی غلامی ہماری آزادی اور خود مختاری پراثر انداز تو نہیں ہوگی۔ معاشی استحکام ترقی کے مواقع سے منسلک ہے ، چنانچہ قرضوں کی قسط مل جانے سے معاشی ٹیم کی کارکردگی ثابت نہیں ہوتی ، حکومت کا کارنامہ تو یہ ہوتا کہ ملک کو معاشی استحکام سے ہمکنار کرتی۔مستقبل قریب عوام کے لیے کڑا ہے ، مہنگائی کا طوفان منہ کھولے کھڑاہے ۔ بڑا سوال ہے کہ کیسی جمہوریت ہے جو عوام کے لیے ریلیف کی بجائے اذیت کا باعث بن رہی ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں