بلدیاتی الیکشن ہونگے یا نہیں فی الحال کچھ کہنا قابل از وقت

 بلدیاتی الیکشن ہونگے یا نہیں فی الحال کچھ کہنا قابل از وقت

جب تک سیاسی جماعتیں اس حوالہ سے یکسو نہیں ہوں گی نظام مضبوط نہیں ہو گا ، عمران مقامی حکومتوں کے فعال کردار کے علمبردار رہے مگر پیش رفت نہ ہو سکی

(تجزیہ:سلمان غنی) عدالت عظمیٰ کے فیصلہ کے بعد پنجاب میں بلدیاتی اداروں کی بحالی کے عمل کے بعد حکمران جماعت تحریک انصاف نے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد بارے سنجیدگی ظاہر کرنا شروع کر دی اور اس حوالہ سے صوبائی حکومتوں پر عدالت عظمیٰ اور الیکشن کمیشن کا براہ راست دباؤموجود ہے کہ وہ اپنے ہاں جلد از جلد بلدیاتی انتخابات ممکن بنائیں اور ان اداروں کی ذمہ داری منتخب اراکین کے سپرد کریں ہمارے سوال یہ ہیں کہ آخر کیونکر صوبائی حکومتیں بلدیاتی انتخابات سے گریزاں رہی ہیں اور سیاسی جماعتیں ان اداروں کی اہمیت و حیثیت سے واقفیت رکھنے کے باوجود اس حوالہ سے اپنی کمٹمنٹ پر عملدرآمد نہیں کر پاتیں ۔عدلیہ اور الیکشن کمیشن کے کردار سے تو لگتا ہے کہ اب صوبائی حکومتیں ان انتخابات سے دوڑ نہیں سکتیں اور انہیں کرانا پڑیں گے اور اس حوالہ سے پختونخوااور پنجاب نے نیا نظام بھی تشکیل دے دیا ہے امکان یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ براہ راست میئر اور چیئرمین کے انتخابات یقینی بننے سے یہ سسٹم زیادہ مضبوط اور موثر ہو گا اور چیئرمین اور میئر اراکین قومی و صوبائی اسمبلی سے زیادہ مضبوط با اختیا رہوں گے اور بیورو کریسی کو بھی ان کی اہمیت تسلیم کرنا ہو گی کیونکہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 140اے کے مطابق ان اداروں کو ہر طرح کی سیاسی مالی اور انتظامی خودمختاری حاصل ہو گی لیکن پھر بھی مجوزہ سسٹم ایسے بنائے گئے ہیں جن میں صوبائی حکومتوں کے کنٹرول کو یقینی بنایا جا رہا ہے جو عملی طور پر آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم کے منافی ہے اور بدقسمتی یہ رہی ہے کہ 18ویں ترمیم کے تحت صوبوں نے مرکز سے تو اختیارات حاصل کر لئے مگر صوبوں نے آگے اختیارات اضلاع کو منتقل نہیں کئے ۔جس کی وجہ سے بلدیاتی سسٹم کمزور ہوا اور عوام میں احساس محرومی بڑھا اور مقامی مسائل حل نہ ہو سکے بلکہ ان میں اضافہ ہوتا گیا مقامی حکومتوں کے نظام کا ایک بڑا فائدہ یہ رہا ہے کہ اس سے بہت سے طبقات اور جمہوری عمل کو فائدہ پہنچتا ہے سب سے زیادہ فائدہ محروم طبقات کو حاصل ہوتا ہے اور پھر مرحلہ وار یہاں سے آدھی قیادت منتخب جمہوری اداروں میں اہمیت و حیثیت حاصل کرتی جاتی ہیں لیکن ایک بڑی سیاسی بد قسمتی یہ رہی کہ جو سیاسی جماعتیں ایک منشور اور پروگرام میں ان اداروں کی حیثیت و اہمیت تسلیم کرتے ہوئے انہیں با اختیا ر اور فعال بنانے کا وعدہ کرتی ہیں عملاً ان کا سیاسی مقدمہ مقامی حکومتوں کی تشکیل میں کمزور رہا ہے جس کی وجہ سے یہ سسٹم بھی مضبوط نہیں بنا اور خود سیاسی جماعتیں بھی موثر نہ بن سکیں آج بھی ان اداروں کے انتخابات کے ساتھ اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ مقامی حکومتوں کو آئینی تحفظ ملنا چاہیے اور جب تک سیاسی جماعتیں اس نظام کو تسلسل سے چلانے اور انہیں مضبوط بنانے کے حوالہ سے یکسو نہیں ہوں گی یہ نظام مضبوط نہیں بن سکے گا اس کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچ پائیں گے جس کے لئے ان اداروں کو ہر طرح انتظامی سیاسی اور مالی خودمختاری دینا ہو گی ان اداروں کی تشکیل میں بڑی رکاوٹ ہمیشہ سے صوبائی حکومتیں رہی ہیں کیوں کہ وہ اپنے اختیارات پر قدغن برداشت نہیں کر پاتیں اور آج کی صورتحال میں بھی انتخابی عمل میں اصل رکاوٹ یہی ہیں اور انہیں بنانے اور چلانے کا عزم ظاہر کرنے کے باوجود انتخابی عمل بارے ان کی نیک نیتی عیاں نہیں یہ صرف عدلیہ اور الیکشن کمیشن کا دباؤہو گا جس کی بنیاد پر یہ ممکن بن سکیں گے لہٰذا صوبائی حکومتوں پر اس حوالہ سے دباؤبرقرار رکھنا پڑے گا اور اس میں سیاسی جماعتوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا خود وزیر اعظم عمران خان جو مقامی حکومتوں کے سسٹم اور ان کے فعال کردار کے علمبردار رہے مگر ان کی حکومت میں بلدیاتی انتخابات پر پیش رفت نہ ہو سکی اور اب بھی باوجود اس امر کے کہ ان انتخابات کے انعقاد کا اعلان ہو چکا ہے مگر عملاً یہ ممکن بن سکیں گے فی الحال کچھ کہنا قابل از وقت ہو گا ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں