لاہور کے سیمینار میں سپریم کورٹ کے ججز بلائے گئے، مہمان خصوصی اسی عدالت سے سزا یافتہ مفرور کو بنایا گیا : ملک میں صرف چھوٹے چور پکڑے جاتے ہیں : وزیراعظم

لاہور کے سیمینار میں سپریم کورٹ کے ججز بلائے گئے، مہمان خصوصی اسی عدالت سے سزا یافتہ مفرور کو بنایا گیا : ملک میں صرف چھوٹے چور پکڑے جاتے ہیں : وزیراعظم

پیغام جاتا ہے کہ بڑا ڈاکا مارو ،اخلاقیات تباہ ہو جائیں تو سونے و جواہرت بھی ریاست کو نہیں بچا سکتے ، اگر اخلاقی اقدار ہوں تو اس ریاست کو ایٹم بم بھی تباہ نہیں کر سکتا ،جیسے جاپان تھا ، نبی ؐ کی شان میں گستاخی کا ایسا مدلل جواب دیں کہ کوئی یہ نہ کہے مسلمان اظہار رائے کیخلاف ہیں:جہلم میں یونیوسٹی سے خطاب،کھاد کی قیمتوں کا جائزہ،ذخیرہ اندوزی کیخلاف کارروائی کی ہدایت

اسلام آباد (خصوصی نیوز رپورٹر،نیوز ایجنسیاں، مانیٹرنگ ڈیسک)وزیراعظم عمران خان نے کہا ملک میں صرف چھوٹے چور پکڑے جاتے ہیں، لاہور کے سیمینار میں سپریم کورٹ کے ججز بلائے گئے ، مہمان خصوصی اسی عدالت سے سزا یافتہ مفرور کو بنایا گیا، پیغام جاتا ہے کہ بڑا ڈاکا مارو ،اخلاقیات تباہ ہو جائیں تو سونے و جواہرت بھی ریاست کو نہیں بچا سکتے ، اگر اخلاقی اقدار ہوں تو اس ریاست کو ایٹم بم بھی تباہ نہیں کر سکتا ،جیسے جاپان تھا ، ان خیالات کا اظہار انہوں نے جہلم میں القادر یونیورسٹی کے اکیڈمک بلاکس کے افتتاح کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا، وزیراعظم نے کہا اپنی آئندہ نسلوں کو سیرت النبی ؐ،اولیاکرام ؒکی تعلیمات سے آگاہ کرنے اور کردار سازی کے لئے القادر یونیورسٹی اور رحمت للعالمین ؐاتھارٹی تحقیق کے اہم مراکز ہوں گے ، یہ یونیورسٹی مسلم امہ کو درپیش فکری مسائل کو سلجھانے کے حوالے سے عالمی سکالرز کے تعاون سے تحقیق و مباحثہ کا محور بنے گی ، قرانی احکامات کے باوجود معاشرے میں اجتہاد سے دوری بدقسمتی ہے ، عظیم قوم بننے کے لئے عظیم کردار چاہیے ، اخلاقی اقدار کے حامل معاشرے کو ایٹم بم بھی تباہ نہیں کرسکتا،پاکستان صلاحیتوں سے مالا مال ملک ہے ، یہاں سب کچھ ہے صرف باکردارقیادت کی کمی رہی ہے ،عوام کی خدمت پیغمبرانہ کام ہے ، وہ انسانیت کی خدمت کے لئے آئے ،جب کوئی لیڈر بن کر قوم کا پیسہ چوری کر ے توملک کے لئے اس سے زیادہ بڑا عذاب کوئی اور نہیں ہو سکتا، خود غرض اور بزدل آدمی کبھی لیڈر نہیں بن سکتا۔جو اپنی ذات سے باہر نکل کر سوچے وہ قائد اعظم کی شکل میں لیڈر بنتاہے ، اللہ تعالی ٰایمان والوں کے خوف دور کردیتا ہے ، اسی لئے مدینہ میں ایک سے بڑھ کر ایک بڑا لیڈر آیا، وہ لوگ صادق اور امین تھے ،ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ یہاں لیڈٖ ر شپ کا معیار یہ تھا کہ کتنا پیسہ کمایا اور اپنے کتنے رشتہ داروں کو اوپر لے آئے تاہم مدینہ کی ریاست میں میرٹ تھا،نبیؐ نے لیڈر شپ کا جو تصور دیا تھااس پر یہ یونیورسٹی اور رحمت للعالمین ؐاتھارٹی تحقیق کرے گی، اس یونیورسٹی میں دنیا کے دانشوروں کے ساتھ مل کر تحقیق کے مواقع ہوں گے ، یہاں بڑے بڑے بزرگان دین پر بھی ریسرچ ہو گی،ان کے کلام پر تحقیق ہو گی۔اگر کسی ملک میں نبی ؐکی شان میں گستاخی ہوتی ہے تو مسلمان سربراہا ن اور اسلامی سکالرز مل کر ایسا مدلل جواب دیں کہ کوئی ملک یہ نہ کہہ سکے کہ مسلمان اظہار رائے کے خلاف ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ جہاں اخلاقیات تباہ ہوں گی وہاں سونا، ہیرے جواہرات بھی نکلیں پھر بھی وہ ریاست نہیں بچ سکتی،مدینہ کی ریاست کا تصور امر بالمعرو ف و نہی عن المنکر تھا،بدعنوانی سے معاشرہ تباہ ہو جاتاہے اگر ہم پاکستان کو دیکھیں تو 1985 کے بعد اس ملک میں سب سے بڑی تباہی بدعنوانی کی صورت میں آئی،ایسا معاشرہ جس میں محنت کرنے والا یہ دیکھے کہ قبضہ گروپ بڑے بڑے پلازے بھی کھڑے کرلیتا ہے اور وہ اسمبلیوں تک بھی پہنچ جاتا ہے تو ایسے معاشرے میں اخلاقیات پروان نہیں چڑھ سکتیں،ہماری بدقسمتی ہے کہ سپریم کورٹ سے سزا یافتہ شخص جھوٹ بول کر ملک سے بھاگا ہوا ہے ،ملک میں صرف چھوٹے چور ہی پکڑے جاتے ہیں ،ملک میں چوروں کو برا نہیں سمجھا جاتا ، ایک ہی سیمینار میں سزا یافتہ مجرم اور چیف جسٹس کوبلایا گیا ،پیغام گیا ڈاکا مارنا ہے تو بڑا ڈاکا مارو،جب کرپشن کو برائی نہ سمجھا جائے تو معاشرے میں محنت کون کرے گا؟انہوں نے اخلاقی اقدار کی اہمیت پر زور دیتے ہو ئے کہا کہ اخلاقی اقدار کے حامل معاشرے کو ایٹم بم بھی تباہ نہیں سکتا، ہم نے آنے والی نسلوں کی سیرت النبیؐ کے مطابق کردار سازی کرنی ہے ۔میں اپنے عقیدے کی بنا پر سیاست میں آیا کیونکہ سیاست میں آنے سے پہلے میں دولت ، شہرت سمیت سب کچھ دیکھ اورحاصل کرچکا تھا،کسی انسان پر اللہ کی سب سے بڑی نعمت ایمان ہے ، ایمان والا آدمی دولت ، شہرت ، انا ، ذات ، برادری کی زنجیروں کے خوف سے آزاد ہو جاتاہے جب انسان ان زنجیروں سے آزاد ہو جائے تو اس کی صلاحیت کو بروئے کار آنے سے کوئی روک نہیں سکتا، میں نے مدینہ کی ریاست کا مطالعہ کیا ، آخر کیا وجہ تھی کہ 2 سپر پاورز کی موجودگی میں بظاہر کم پڑھے لکھے لوگوں نے دنیا کی امامت شروع کر دی، پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا، میں اپنے مطالعہ سے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جب تک ہم سیرت النبی ؐپر نہیں چلیں گے ،علامہ اقبال کے خواب کی تکمیل نہیں کرسکیں گے ، ان کی سوچ کسی کی ذہنی غلامی اور نوآبادیاتی نظام سے آزادی تھی کیونکہ ذہنی غلامی جسمانی غلامی سے زیادہ خوفناک ہوتی ہے ، مغربی تہذیب اور اسلام کے موازنے پر علامہ اقبال نے شکوہ جواب شکوہ لکھی،ہمارا تعلیمی نظام ترقی کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہے ، ایک طرف انگریزی نصاب تعلیم دوسری طرف اردو اور پھر دینی مدارس ان تین متوازی نظام تعلیم سے تین مختلف طبقات نکلنا شروع ہوئے جن کا ایک دوسرے سے کوئی واسطہ نہیں،اس لئے ہم نے ملک بھر میں یکساں نصاب تعلیم رائج کرنے کا فیصلہ کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ سب سے زیادہ پاکستانی لوگ اللہ کے نام پر خیرات کرتے ہیں ، نماز ،روزہ ، حج و عمرہ کے پابندہیں،اسلام کے خلاف جب بھی کوئی معاملہ ہو تو سب سے پہلے پاکستانی نکلتے ہیں، ہم ایک طرف سچے عاشق رسولؐ ہیں اور ہمارا دین پر سب سے زیادہ زور ہے لیکن بدقسمتی ہے کہ ہماری زندگی اس کا عملی نمونہ نہیں ہے ،ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا پاکستان کے ایک بڑے سکالر اشفاق احمد کی چین کے عظیم رہنما مائوزے تنگ سے ملاقات ہوئی تو چینی رہنما نے پاکستان کو عظیم قوم قرار دیا، ان کا کہنا تھاکہ جو قوم شدید گرمی میں اللہ کے خوف کی وجہ سے روزہ کی حالت میں پانی نہیں پیتی وہ اللہ کے خوف سے رشوت سے بھی بچ سکتی ہے ، وہ پورا ٹیکس بھی دے سکتی ہے ، ایسے ملک کو کوئی ترقی سے نہیں روک سکتا۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہی مدینہ کی ریاست کے اصول تھے ، وہاں خود احتسابی تھی، مسلمانوں کے کردار کی وجہ سے غیر مسلم اسلام قبول کرتے تھے ، ہمیں عظیم قوم بننے کے لئے عظیم کردار اپنانا چاہیے ، نبیؐ کی نبوت سے پہلے پہچان صادق اور امین کی تھی،انہوں نے کہا کہ سچ اور انصاف کی بنیاد پر کردار بنتا ہے ، ان صفات کے بغیر کوئی لیڈر نہیں بن سکتا، نبیؐ کی سیرت کے مطالعہ کے لئے ادارہ بنانے کی سوچ پیش نظر تھی ، ہم عاشقان رسولؐ ہیں اور ان کی سیرت پر عمل کرنے والی قوم بن سکتے ہیں، پاکستان کے قیام میں جن اولیا کرام کا کردار تھا وہ سچے عاشق رسولؐ تھے ، انہوں نے عام انسانوں کی زبان میں سیرت نبوی ؐ کا پیغام لوگوں تک پہنچایا ، ہم نے اس مقصد کیلئے رحمت للعالمینؐ اتھارٹی بنائی ہے ، اس کے لئے میڈیا کو بروئے کار لائیں گے ،لوگوں کو سیرت النبیؐ سے آسان زبان میں آگاہی دیں گے ، مدینہ کی ریاست میں جتنے کم وقت میں ایک سے بڑھ کر ایک عظیم انسان سامنے آیا دنیا کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی ، اس پر بھی اس یونیورسٹی میں تحقیق کریں گے کیونکہ یونیورسٹی کا بنیادی کام تحقیق ہوتا ہے ۔ اسلام کی تاریخ میں سارے سائنس دان اور دانشور ایک ساتھ چل رہے تھے ۔ اسلام اور سائنس میں کوئی تصادم نہیں۔ وزیراعظم نے کہاکہ پاکستان میں یونیورسٹیوں میں تحقیق کی ضرورت ہے ۔اپنی آنے والی نسلوں کو مغربی تہذیب سے آگاہ کرنے کے لئے تحقیق ضرور ی ہے تاکہ انہیں بتایا جائے کہ مغرب میں اگر ٹیکنالوجیکل ترقی نظر آ رہی ہے تو دوسری طرف ان کی عبادت گاہیں خالی ہو رہی ہیں،صرف مادی ترقی سے معاشرے میں عدم توازن پیداہورہا ہے ، اس حوالے سے ہماری نوجوان نسل ابہام کا شکار ہے ، اس ترقی کو دیکھ کر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم پیچھے رہ گئے ہیں، مغرب میں ہونے والی اس ترقی کے اثرات کے حوالے سے تحقیق کرنا یونیورسٹیوں کا کام ہے ، دنیامیں اس وقت سب سے بڑا چیلنج موبائل فون ہے ،اس کے مثبت اثرات کے ساتھ ساتھ کیا منفی اثرات ہیں اور ان سے کیسے بچنا ہے ، ہم سوشل میڈیا کو بند تو نہیں کرسکتے لیکن اپنے بچوں کو اچھے اور برے کی تمیز سکھا سکتے ہیں اور ان میں شعور پیدا کر سکتے ہیں۔ القادر یونیورسٹی عالمی سکالرز کے تعاون سے تحقیق ، مباحثہ کا مرکز بنے گی،ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں اجتہاد نہیں ہونے دیتے حالانکہ اجتہادقرآن کا حکم ہے ،ہماری بد قسمتی ہے کہ موقف سے اختلاف رائے رکھنے والے کو کافر قرار دے دیتے ہیں جب ایسی سوچ ہو تو ہم آگے کیسے بڑھ سکتے ہیں،کفر کے فتوئوں کا خوف نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے مقابلے میں مغرب میں اسلام پر زیادہ تحقیقی کام ہو رہاہے ۔ دریں اثنا وزیراعظم نے کھاد کے موجودہ سٹاک اور قیمتوں کے حوالے سے جائزہ اجلاس کی صدارت کی ، اجلاس کو بتایا گیا کہ وزیر اعظم کے پچھلے ہفتے ذخیرہ اندوزی کے خلاف اقدامات کی ہدایت کے بعد کھاد کی فی بوری قیمت فروخت میں اوسطاً 400 روپے کی کمی آئی ہے ، کھاد کی سپلائی کو مانیٹر کرنے کیلئے آن لائن پورٹل بنا لیا گیا ہے جس سے صوبے اور تمام ضلعی انتظامیہ کھاد کی نقل و حرکت اور سٹاک کو مانیٹر کر سکتے ہیں،چیف سیکرٹری پنجاب نے بتایا کہ 13 نومبر سے اب تک کھاد کی ذخیرہ اندوزی کو روکنے کیلئے متعدد اقدامات کئے گئے ہیں، ان میں 347 ایف آئی آر، 244 گرفتاریاں ہوئیں ، 480 گودام سیل اور 2کروڑ 79 لاکھ کے جرمانے کیے جا چکے ، ہر ضلع میں کنٹرول روم بنائے گئے ہیں جہاں کھاد کی کمی، ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری سے متعلق شکایات درج کروائی جا سکتی ہیں، صوبوں کے مابین سرحدوں پر سمگلنگ روکنے کیلئے چیک پوسٹیں قائم کر دی گئی ہیں،ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری کے خلاف متعلقہ قوانین میں ترامیم کی جا رہی ہیں جس میں اطلاع فراہم کرنے والوں کو ضبط شدہ مال کی مناسبت سے انعام دیا جائے گا،وزیر اعظم نے ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری میں ملوث عناصر کے خلاف قانونی کارروائی جاری رکھنے کی ہدایت دی۔علاوہ ازیں وزیر اعظم سے چیئرمین ایسوسی ایشن آف پاکستانی فزیشنز و سرجنز (اے پی پی ایس ف) برطانیہ ڈاکٹر عثمان خان نے ملاقات کی ، معاون خصوصی ڈاکٹر فیصل سلطان بھی ملاقات میں موجود تھے ،اس موقع پرپاکستان میں صحت کی سہولیات کی بہتری، نرسنگ اور سمندر پار پاکستانی ڈاکٹرز کوپاکستان کے صحت کے شعبہ میں سرمایہ کاری کرنے پر ترغیب کے حوالے سے گفتگو کی گئی ،ڈاکٹر عثمان نے وزیر اعظم کو سمندر پار پاکستانیوں کے لیے اقدامات پر خراج تحسین پیش کیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں