خطرناک معاشی صورتحال سب کے مل بیٹھنے کی متقاضی

خطرناک معاشی صورتحال سب کے مل بیٹھنے کی متقاضی

ملک کو اس نہج پر پہنچانے کی ذمہ دار اشرفیہ ہے مسائل و مہنگائی زدہ عوام نہیں

(تجزیہ: سلمان غنی ) ملکی معاشی صورتحال کے حوالے سے جن خطرات اور خدشات کا اظہار ہوتا نظر آیا بالآخر ہم معاشی محاذ پر انہی سے دو چار ہیں اور کیا آئی ایم ایف سے ہونے والے معاہدے کے بعد چھ سو ارب سے زائد کا منی بجٹ ہمیں بحرانی کیفیت سے نکال پائے گا، ہمارا روپیہ مزید ابتری سے بچ سکے گا؟ ڈالر کی پرواز متاثر ہو سکے گی؟۔ حکومت اگر اسے سٹہ بازوں کا بھیانک کھیل سمجھتی ہے تو ان پر ہاتھ کون ڈالے گا ؟ منی بجٹ میں سیلز ٹیکس کی چھوٹ کا خاتمہ اور 17 فیصد جی ایس ٹی کے نفاذ سے مہنگائی کے آنے والے نئے طوفان کا مقابلہ کون کرے گا ؟۔ موجودہ حکومت تو سیاسی تبدیلی کے نعرہ پر برسراقتدار آئی تھی اس سے امیدیں اور توقعات تھی کہ ایک انقلابی پروگرام کے تحت کرپشن لوٹ مار کا خاتمہ ’ معیشت کی بحالی اور ترقی ’مہنگائی کا سد باب’ عوام الناس کے لیے ریلیف ہوگا، تو جوانوں کو ایک کروڑ نوکریاں ملیں گی ،50 لاکھ گھر تعمیر ہونگے مگر تین سال گزرنے کے بعد صورتحال میں بہتری کے بجائے ابتری عیاں ہے ،تمام حکومتی دعوے راکھ بن گئے ہیں اور آج معیشت کی زبوں حالی نے سب کو پریشان کر رکھا ہے ۔ آئی ایم ایف سے قرض معاہدے اور سعودی عرب سے امداد کے بعد ڈالر کی پکڑ ہونی چاہئے تھی اورروپے کی قیمت میں اضافہ ہونا تھا مگر ڈالر پکڑا نہیں جا رہا۔ خطرناک معاشی صورتحال کے باعث اب کہا جا سکتا ہے کہ گھبرانے کا وقت آ گیا ہے ۔ معاشی حوالے سے ڈالر اب بھی ہمارے کنٹرول میں نہیں رہا اور عوام کے اندر مہنگائی کے باعث شدید غم و غصے کا رجحان ہے ۔نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ اب حکومت نہیں سب کو ملکی معاشی بقا کیلئے سر جوڑنا پڑے گا ورنہ حالات کا رخ کیا ہوگا اس کی ذمہ دار حکومت ہوگی۔ ملک کو اس نہج پر پہنچانے کی ذمہ دار اشرفیہ ہے نہ کہ مسائل زدہ اور مہنگائی زدہ عوام ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں