ججز گرمیوں میں گرم اور سردیوں میں سرد فیصلہ نہیں دیتے، عدالتیں آزاد ہیں اور رہینگی: چیف جسٹس

ججز گرمیوں میں گرم اور سردیوں میں سرد فیصلہ نہیں دیتے، عدالتیں آزاد ہیں اور رہینگی: چیف جسٹس

وکلا قانون کے علم سے دور،مطالعہ کی عادت کا فقدان ،بیشتر نہیں جانتے آگے کیا کرنا ہے ،بارکونسلزانٹرن شپ کرائیں،پروفیشنل وکلا احتجاج نہیں کرتے :جسٹس گلزار احمد ، عدلیہ بحالی تحریک کا مقصدحملے کا لائسنس ملنا نہیں،مہذب معاشروں میں بچے باپ پرحملہ نہیں کرتے ، نوجوان وکلا سے پرتشدد کارروائیاں کرائی جاتی ہیں:جسٹس امیر بھٹی

لاہور (کورٹ رپورٹر،دنیا نیوز،اے پی پی)چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے کہا ہے کہ عدلیہ آزاد ہے اوررہے گی،عدالتی فیصلوں کو رجحان قراردینا مناسب نہیں ، ججز گرمیوں میں گرم اور سردیوں میں سردی والے فیصلے نہیں کرتے ،قانون کی حکمرانی اور ہر شہری کے بنیادی حقوق کی حفاظت ہماری آئینی ڈیوٹی ہے اگر اس میں فیل ہوئے تو ہم نے اپنے حلف کی پاسداری نہیں کی، اگر ایسے حالات ہوئے تو اسکا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہیں۔ پنجاب بارکونسل میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ موجودہ تنائواور حالات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے وکلا قانون کے علم سے دور ہوتے جا رہے ہیں، ہمارے نوجوان وکلا میں پڑھنے کی عادت کا فقدان نظر آتا ہے ۔ وکلاکے لئے کوڈ آف کنڈکٹ موجود ہے ، لیکن وکلاضابطہ اخلاق سے دور ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ جسٹس گلزار احمد نے مزید کہا کہ پنجاب بار کونسل سے انرولمنٹ لے کر نکلنے والے اکثر وکلاکو یہ بھی پتا نہیں ہوتا کہ انہوں نے آگے کیا کرنا ہے ، بار کونسلز کا اس معاملے میں اہم کردار ہے ، وکیل کو لائسنس دیتے وقت پوچھا جائے کہ اس کا کیا پلان ہے اور جن کے لئے کوئی مناسب پلان موجود نہ ہو انہیں مناسب رہنمائی فراہم کی جائے ۔چیف جسٹس نے کہا کہ بار کونسلز کے پاس تمام وکلاچیمبرز کا ڈیٹا موجود ہونا چاہیے اور ان کے ساتھ رابطہ قائم کرکے نئے وکلاکو وہاں انٹرن شپ کے لئے بھیجا جائے ، اس سے معاملات بہتر ہو سکتے ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا تھا کہ سیمینار میں جن حالات و واقعات کا تذکرہ ہوا ہے ، ان میں صداقت موجود ہے ، اندازہ ہوتا ہے کہ پنجاب بار کونسل درست سمت کی جانب گامزن ہے ، ہم امید کرتے ہیں کہ آنے والا دور بہتر دور ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ عدالتیں ہمارا گھر ہیں، وکلا وہاں معاونت کے لئے آتے ہیں ، کوئی آنچ پر ہمیشہ وکلا ہی فرنٹ لائن پر آکر اسکے تقدس کی حفاظت کرتے ہیں، ایک جج کے سامنے دو فریقین کے وکلااپنے اپنے دلائل پیش کرتے ہیں اور فیصلہ صرف ایک ہی کے حق میں آتا ہے ، اس میں لڑنے جھگڑنے یا تشدد کی گنجائش ہی نہیں ہے ، اگر فیصلہ کسی وکیل کے خلاف آئے تو اسکے پاس اگلے فورم پر اپیل کا حق موجود ہے ۔چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ وکلا اور ججز کے درمیان کسی بھی قسم کا تنائوہونا سمجھ سے بالاتر ہے ، ایسا کسی بھی صورت ممکن نہیں ہونا چاہیے ، پروفیشنل وکلااحتجاج نہیں کرتے بلکہ دستیاب قانونی راستے کو اپناتے ہیں،ہمارے پاس ہر مسئلے کے حل کیلئے مناسب فورمز موجود ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے فیصلوں پر تعمیری اور جائز تنقید کریں، اس سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے ، لیکن یہ یاد رکھیں کہ عدلیہ کا کوئی رجحان نہیں ہوتا، ہمارا ہر فیصلہ قانون کے تابع ہوتا ہے ،جج صاحبان گرمی کے موسم میں گرمی والا ، سردی میں سردی والا فیصلہ نہیں دیتے ، جج جس کیس کو سنیں گے اسکے حقائق کے مطابق فیصلہ کریں گے ، عدالتی فیصلوں کو ناراضی اور جھگڑے کی وجہ نہیں بنانا چاہیے ۔ انہوں نے کہا اگر کسی جگہ ہم سے غلطی ہوتی ہے تو نشاندہی کریں۔ انہوں نے کہا عدالتوں میں زیرالتوامقدمات ہمارے لئے سب سے بڑا مسئلہ ہے ، کورونا وباکی وجہ سے زیرالتوا مقدمات کی تعداد میں اضافہ ہوا، ہمارے ججز ان مقدمات کا فیصلے کرنے میں سنجیدہ ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ وکلا اس گھمبیر معاملے کے حل کیلئے ہماری معاونت کریں۔جسٹس گلزاراحمد نے کہا کہ جعلی مقدمہ بازی بھی ہمارے عدالتی نظام پر ایک بوجھ کی مانند ہے ،اس میں وکلا کا کردار بہت اہم ہے ، جعلی مقدمے بازی کی حوصلہ شکنی ہونی چا ہیے ، اسی طرح چھوٹے چھوٹے مقدمات پر طویل مقدمہ بازی کی بجائے اے ڈی آر کا طریقہ کار اپنائیں۔ انہوں نے مزید کہا ہماری ضلعی عدالتوں کا انفراسٹرکچر جدید تقاضوں اور بنیادی سہولیات سے محروم نظر آتا ہے ، حکومت کو اس پر توجہ دینی چاہیے ، ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان انفراسٹرکچر کی بہتری کے ہر ممکن اقدامات کو یقینی بنائیں۔ فاضل چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ ججز کی تعیناتی کے لئے قائم جوڈیشل کمیشن پہلے کی نسبت بہت اوپن اور ڈیموکریٹک ہو چکا ہے ، ہر تجویز پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا جاتا ہے ، ہر ممبر کو اپنی بات کہنے اور رائے دینے کا پورا موقع دیا جا تا ہے ۔قبل ازیں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ محمد امیر بھٹی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وکلا نے عدلیہ آزاد کرائی تو کیا وکلا کو عدلیہ پر حملے کا لائسنس دے دیا جائے ، عدلیہ بحالی تحریک کا یہ مطلب نہیں کہ عدالت پر چڑھائی کردی جائے ۔انہوں نے کہا کہ کسی کے گھر میں زبردستی داخل ہونے والوں پر انسداددہشت گردی کی دفعات نہ لگائیں تو پھر کیا کریں،اگر بار اور بینچ ایک ہی گاڑی کے دو پہیے ہیں تو پھر کس نے اجازت دی ہے کہ عدالتوں پر حملے کئے جائیں، کسی بھی مہذب معاشرے میں بچے اپنے باپ پر حملے نہیں کرتے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ وکالت کا پیشہ اختیار کرنے والوں کی ہر ممکن رہنمائی ضروری ہے ، نوجوان وکلاکو اپنے ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ، انہیں ڈنڈے تھما کر پرتشدد کارروائیوں پر مجبور کیا جاتا ہے ، بدقسمتی سے سینئر وکلاکے چیمبرز میں نوجوان وکلاکو مناسب رہنمائی نہیں ملتی۔ جسٹس امیر بھٹی نے کہا کہ منڈی بہائو الدین کے واقعہ پر قابل عمل موقف اپنانے اور ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرنے پر پنجاب بارکونسل مبارکباد کی مستحق ہے ۔ جوڈیشل افسرکے خلاف درخواست دائر کریں، وعدہ کرتے ہیں ، ایسے ججز کے خلاف کارروائی ہوگی ۔ وائس چیئرمین پنجاب بار کونسل فرحان شہزاد نے کہاکہ سسٹم کو بچانے کے لیے سب کو کردار ادا کرنا ہوگا ، قانون ہاتھ میں لینے والے کیخلاف کارروائی ہوگی ۔ ممبر پنجاب بار کونسل بیرسٹر احمد قیوم کا کہنا تھا کہ منڈی بہائوالدین کا واقعہ مختلف واقعات کا تسلسل ہے ، اگر پتوکی میں جج کے ساتھ بدتمیزی پر ایکشن ہوتا تو حالیہ واقعہ پیش نہ آتا، وکلامیں کالی بھیڑوں کا ذکر تو کیاجاتا ہے لیکن آج تک کوئی کالی بھیڑ ذبح ہوتی ہوئی نظر نہیں آئی، مصلحت پسندی کی وجہ سے آج نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ وہ کالی بھیڑیں، بھیڑیے بن چکے ہیں۔سیمینار سے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس، وائس چیئرمین پنجاب بار ، چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی، سیکرٹری سپریم کورٹ بار اور دیگر مقررین نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں