سانحہ سیالکوٹ :اب بڑے فیصلے کرنے کا وقت آگیا

سانحہ سیالکوٹ :اب بڑے فیصلے کرنے کا وقت آگیا

سنگین جرائم کے حامل افراد کو قرار واقعی سزا ہوگی تو لوگ عبرت پکڑیں گے ، سانحہ نے حکومت، معاشرے کے قابل ذکر طبقات کے آگے بڑا سوال کھڑا کردیا

(تجزیہ سلمان غنی) سانحہ سیالکوٹ نے ریاست، حکومت، اہل سیاست اور معاشرے کے قابل ذکر طبقات کے آگے بڑا سوال کھڑا کردیا ہے ۔ آخر ہمارے ہاں تشدد کے رجحانات کیونکر فروغ پا رہے ہیں ، کون سے عناصر ان رجحانات کی تقویت کے ذمہ دار ہیں ان کا سدباب کیسے ہو سکتا ہے ۔ کراچی سے خیبر تک پائی جانے والی تشویش میں بہت سے سوالات سب دلوں میں ہیں اور کوئی ان کا موثر اور درست جواب دینے کی پوزیشن میں نظر نہیں آتا۔ اس لئے کہ اس حوالہ سے ہماری تاریخ بڑی تلخ ہے ، ہم نے ملک میں آئین وقانون کی بالادستی کے تصور کو بھی مسخ کرکے رکھ دیا جنہیں قانون کی حاکمیت کو یقینی بنانا ہے وہ خود قانون پر اثرانداز ہوتے دکھائی دیتے ہیں ۔سیالکوٹ واقعہ کے اثرات نہ ملک کیلئے اچھے ہیں نہ قوم کیلئے اور اس کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ اس کی وجہ سے دنیا بھر میں پاکستان کے امیج کو نقصان پہنچا ہے ۔ ہم نے خود یہ ثبوت فراہم کیا ہے کہ ہم کسی بھی مسئلہ کا قانونی حل نکالنے کی بجائے قانون ہاتھ میں لیتے ہیں اور اپنی عدالتیں لگا کر فیصلے کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ایک وقت میں ہم خود کو نیوکلیئر پاور سمجھتے ہوئے اس کی ذمہ دارانہ، اہمیت اور حیثیت کو یقینی بنانے کی بات کرتے ہیں ۔ دوسری جانب اپنے طرزعمل سے اس کا ثبوت بھی فراہم کرتے ہیں کہ قانون پر اثرانداز ہونا ہمارے نزدیک کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔ کسی بھی بڑے واقعہ اور سانحہ کے بعد ہمارے حکمران اور ذمہ داران یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ وقت آ گیا ہے کہ اب ہمیں اس ناسور کا خاتمہ کرنا ہے اور یہ وقت کسی نئے حادثے کے ساتھ ہی ختم ہو جاتا ہے ۔ بڑے فیصلوں کا وقت یہی ہے کہ سب سوالوں کے جواب سب کو معلوم نہیں اب ایکشن لینے کی ضرورت ہے ، ایکشن کے لئے جرات اور ہمت کون پیدا کرے گا کیونکہ یہ تاثر بھی نمایاں ہوتا نظر آ رہا ہے کہ حکومت کی رٹ موجود نہیں ۔اصل کمزوری قانون پر عملدرآمد نہ کرنے کی ہے ، اوپر سے نیچے تک قانون کے بجائے طاقت کی حکمرانی کے اصول رائج ہیں ،اسباب سب کو معلوم ہیں مگر کوئی بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کو تیار نہیں۔ ضرورت یہ ہے کہ انتہا پسندی کے خلاف عملاً اقدامات ہوں گے تو معاشرے سے ردعمل بھی شروع ہو جائے گا ۔ 22 کروڑ عوام انتہا پسند ہیں ایسا نہیں، قطعی نہیں۔ دراصل ہزاروں کے جتھے اپنا رعب و دبدبہ قائم کرنے میں کامیاب رہے ہیں ۔ انہیں ہضم کیا جا رہاہے ۔ ان کی وجہ سے سیاسی مفادات پورے ہوتے ہیں۔ماضی گواہ ہے کہ سیاسی قوتوں کا راستہ روکنے کے لئے مذہبی قوتوں کو تحفظ دیا جاتا رہا ہے ،یہی وجہ ہے کہ یہ پودے اب تناور درخت بن چکے ہیں اور اس سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ سیاسی قیادتیں بھی احساس ذمہ داری سے عاری رہیں۔ سانحہ سیالکوٹ نے ہمیں دنیا کے سامنے لاکھڑا کیا ہے ، ہمارے ہاتھ پاؤں پھول گئے ہیں۔ انتہا پسندی اور شدت پسندی کے خاتمے کی ذمہ داری صرف ریاستی اداروں اور حکومت پر ہی نہیں ہوتی، اساتذہ، والدین، سیاستدانوں، قانون دانوں اور میڈیا پر بھی ہے سب کو اپنے اپنے طرز عمل کا کردار ادا کرنا پڑے گا ۔ ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرانے کی بجائے وقت آ گیا ہے کہ بڑے فیصلوں کی طرف بڑھنا ہو گا، حقیقت پسندانہ طرز عمل کو اختیار کرنا ہو گا اور آئین پاکستان کو بنیاد بنا کر اقدامات کرنا ہوں گے ۔ انتہا پسندی ، نفرتوں کے خاتمے کے لئے تمام مکاتب فکر کے علما کو ایک پلیٹ فارم پر بٹھا کر لائحہ عمل ترتیب دیا جائے تاکہ سانحہ سیالکوٹ جیسے واقعات کی روک تھام ہو ۔ انصاف کے تقاضے فوری انصاف کے متقاضی ہیں تاکہ اس طرح کی بربریت کو روکا جائے ، سنگین جرائم کے حامل افراد کو قرار واقعی سزا ہو گی تو لوگ عبرت پکڑیں گے ہمارے ہاں انتہا پسندی کی ایک بڑی وجہ جزا و سزا کا نہ ہونا بھی ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں