پھانسی دینا چاہیں تو دیدیں : شوکت صدیقی ، یہاں جذبات کی کوئی جگہ نہیں : جسٹس عمر عطا

پھانسی دینا چاہیں تو دیدیں : شوکت صدیقی ، یہاں جذبات کی کوئی جگہ نہیں : جسٹس عمر عطا

جج پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی گئی تو توہین عدالت کا نوٹس بنتا تھاآپ نے چیف جسٹس کو اطلاع بھی نہیں دی:جسٹس طارق ، چیف جسٹس کو خط لکھا تھا:وکیل ، ایک ماہ تک انتظارکیوں کیا:عدالت، ثاقب نثار میری گردن کے پیچھے تھے :سابق جج ہائیکورٹ

اسلام آباد (سپیشل رپورٹر)سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کیخلاف اپیل پر سماعت کے دوران سابق جج نے سخت موقف اختیار کرتے ہوئے کہا آپ مجھے پھانسی دینا چاہیں تو دے دیں، 23 سال بطور وکیل، 7 سال بطور جج اور 3 سال بطور سائل ہو گئے ہیں،میں اس نظام کو بہت اچھے سے سمجھتا ہوں،جسٹس عمر عطا بندیال نے اظہار برہمی کیا اور کہا جذبات کی یہاں کوئی جگہ نہیں، ہمیں یہ انداز بالکل پسند نہیں آیا۔ جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ کے سامنے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کے وکیل حامد خان نے دلائل شروع کئے تو جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کوشش کریں آج ہی اپنے دلائل مکمل کر لیں، حامد خان نے کہا کہ آج دلائل مکمل کرنا ناممکن ہے ،6 ماہ بعد میرا کیس لگایا گیا ہے ،جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ چھ ماہ کے دوران ہم نے بھی بہت سے اہم مقدمات سنے ،16 ہزار ملازمین برطرف ہوئے انکا اہم کیس ہم سن رہے ہیں،جسٹس سردار طارق مسعود نے درخواست گزار کے وکیل سے کہا کہ کیا یہ آپ کی طرف سے تسلیم شدہ حقائق ہیں کہ آپ سے سکیورٹی افسروں نے ملاقات کی؟جب سکیورٹی افسر آپ سے ملے تو آپ نے ان کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیوں نہیں کیا، اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی تو توہین عدالت کا نوٹس بنتا تھا،آپ نے کسی چیف جسٹس کو اطلاع بھی نہیں دی،یہ بتا دیں کیا یہ آپ کا مس کنڈکٹ نہیں تھا،حامد خان نے کہا میرے موکل کو بس اس لیے نہیں نکالا جاسکتا کہ انہوں نے سکیورٹی افسر کو نوٹس نہیں کیا، میرے موکل نے چیف جسٹس کو خط لکھا تھا تو اس پر سپریم کورٹ کو توہین عدالت کا نوٹس دینا چاہیے تھا کہ ایک جج پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ28 جون 2018 کو سکیورٹی افسر آپ سے ملے آپ نے 31 جولائی کو چیف جسٹس کو خط لکھا، ایک ماہ تک انتظار کیوں کیا؟اس موقع پرشوکت عزیز صدیقی روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ آپ اس وقت کی صورتحال دیکھیں کہ اداروں کے سربراہان میری گردن کے پیچھے تھے ،میں توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتا تو کیا ہوتا،اس وقت کے ادارے کے سربراہ ثاقب نثار میری گردن کے پیچھے تھے ،اس کے بعد آپ مجھے پھانسی دیں گے تو دے دیں، 23 سال بطور وکیل، 7 سال بطور جج اور 3 سال بطور سائل ہو گئے ہیں،میں اس نظام کو بہت اچھے سے سمجھتا ہوں،جسٹس عمر عطا بندیال نے شوکت عزیز صدیقی پر اظہار برہمی کیا اور کہا کہ حامد خان صاحب آپ نے دانستہ خاموشی اختیار کی ہے ،جب آپ کے موکل نے اس عدالت کی تضحیک کی تو آپ خاموش رہے ،جس طرح آپ کے موکل پھٹ پڑے یہ ہر لحاظ سے غیر اخلاقی ہے ،آپ نے خاموش رہ کر شوکت عزیز صدیقی کی حوصلہ افزائی کی، حامد خان نے کہا معذرت کرتا ہوں جذبات اکثر آڑے آجاتے ہیں،جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا جذبات کی یہاں کوئی جگہ نہیں، ہمیں یہ انداز بالکل پسند نہیں آیا،آپ اپنے موکل کو اجازت دیتے رہے کہ وہ عدالت کی تضحیک کرتے رہیں،جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا آپ اپنے موکل کو سمجھائیں کہ جب ان کے وکیل موجود ہیں تو وہ بات نہ کریں،جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے یہ نہیں کہا کہ آپ نے تقریر میں سب باتیں غلط کی ہیں، سپریم جوڈیشل کونسل نے یہ کہا کہ تقریر کرنا غلط تھا،شوکت عزیز صدیقی کا موقف ہے کہ بطور جج آپ کا حق ہے جو مرضی کہیں،آپ کا موقف یہ ہے کہ ایک جج کو اپنے جذبات کا اظہار کرنا ہو تو وہ اپنے اعتماد کے وکلا کے پاس جا سکتا ہے ،جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ ہمیں بتا رہے ہیں کہ شوکت عزیز صدیقی پر اس وقت نفسیاتی دبائو تھا،ججز کے بارے میں منفرد بات یہ ہے جج کے دل کے اندر آگ بھی لگی ہو تو وہ خود کو پرسکون رکھتے ہیں،ججز پر بہت سے الزامات لگتے رہتے ہیں جج اپنے فیصلے سے بولتا ہے ،جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہاکہ صرف شوکت عزیز صدیقی کو ہی کیوں ٹارگٹ کیا گیا؟ فاضل وکیل نے کہا کہ ادارے سمجھتے تھے کہ شوکت صدیقی آزاد جج ہیں،فیض آباد دھرنا کیس میں ریمارکس پر بھی جوڈیشل کونسل نے شوکاز بھیجا،جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دئیے کہ دیکھ کر اندازہ ہوگا کہ جج آزاد تھے یا پہلے سے ذہن بنایا ہوا تھا،جسٹس سردار طارق نے کہا کہ فیض آباد دھرنا کیس بار کونسل میں تقریر سے پہلے ہوا تھا، برطرفی تقریر پر ہوئی دونوں کا آپس میں تعلق نہیں بنتا، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ شوکت عزیز صدیقی نے کیا ریمارکس دیئے تھے ؟ حامد خان نے کہا شوکت عزیز صدیقی نے فیض آباد دھرنا کیس میں ریمارکس دئیے ، ججز سماعت کے دوران آبزرویشن دیتے رہتے ہیں،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا شوکت صدیقی نے خود سے منسوب ریمارکس کی تردید کی تھی؟جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ تقریر اور ریمارکس تسلیم شدہ ہیں جن پر کونسل نے فیصلہ کیا،عدالت نے کیس کی مزید سماعت آج تک ملتوی کر دی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں