رانا شمیم بیرون ملک نہیں جاسکتے ، پیرتک اصل بیان حلفی دیں ورنہ فرد جرم عائد ہوگی : اسلام آباد ہائیکورٹ
بیان حلفی یوکے میں کیوں دیا؟ اگر ان کا ضمیر جاگ گیا تھا تو کسی فورم پر جمع کراتے ، لاکر میں تو کوئی نہیں رکھتا،ثابت کرناہوگاعمل بدنیتی پر مبنی نہیں تھا:چیف جسٹس ، ثاقب نثارکاسامناکرنے کوتیارہوں،عدلیہ کو متنازعہ بنانا مقصد نہیں تھا، جو کچھ ہوا اس پر افسوس :سابق چیف جج کاجواب،راناشمیم کانام ای سی ایل میں ڈالنے کیلئے خط
اسلام آباد(اپنے نامہ نگارسے ،اے پی پی) اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کے بیان حلفی کی خبر کی اشاعت پر توہین عدالت کیس میں رانا شمیم کو اصل بیان حلفی جمع کرانے کیلئے مزید پیرتک مہلت دیتے ہوئے کہا آئندہ سماعت تک اصل بیان حلفی جمع نہ کرانے پر فرد جرم عائد کردیں گے ،عدالت نے راناشمیم کوبیرون ملک جانے سے روک دیا،سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم نے شوکاز نوٹس پراسلام آبادہائیکورٹ میں جواب جمع کرا دیا جس میں کہاگیاہے کہ جو کچھ بیان حلفی میں کہا اس پر ثاقب نثار کا سامنا کرنے کو تیار ہوں،ثاقب نثار سے گفتگو گلگت میں ہوئی جو پاکستان کی حدود سے باہر ہے ،بیان حلفی پبلک نہیں کیا توہین عدالت کی کارروائی نہیں ہو سکتی، اپنی زندگی کے دوران پاکستان میں بیان حلفی پبلک نہیں کرنا چاہتا تھا ، برطانیہ میں بیان ریکارڈ کرانے کا مقصد بیان حلفی کو بیرون ملک محفوظ رکھنا تھا، واقعہ ثاقب نثار کیساتھ 15 جولائی 2018 کی شام چھ بجے کی ملاقات کاہے ،مرحومہ بیوی سے وعدہ کیا تھا حقائق ریکارڈ پر لاؤں گا،بیان حلفی مرحومہ اہلیہ سے کیا وعدہ نبھانے کیلئے ایموشنل پریشر میں کیا،بیان حلفی کسی سے شیئر کیا نہ ہی پریس میں جاری کیا،عدلیہ کو متنازعہ بنانا مقصد نہیں تھا، جو کچھ ہوا اس پر افسوس کا اظہار کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں،عدلیہ کی توہین کا ارادہ ہوتا تو پاکستان میں بیان حلفی ریکارڈ کراتا،لندن میں ریکارڈ بیان حلفی سربمہر لفافے میں پوتے کو دیا ،پوتے کو واضح ہدایت کی بیان حلفی کھولا جائے نہ پبلک کیا جائے ،نہیں پتا رپورٹر کو بیان حلفی کس نے جاری کیا، نوٹری پبلک لندن بیان حلفی کی کاپی ریکارڈ کیلئے اپنے پاس بھی رکھتا ہے ،توہین عدالت کا شوکاز نوٹس واپس لیا جائے ، منگل کودوران سماعت رانا شمیم، اخبار کے ایڈیٹر عامر غوری، صحافی انصار عباسی، اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان،ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نیاز اللہ نیازی اوردیگر عدالت میں پیش ہوئے ، جبکہ اخبار کے چیف ایڈیٹر میر شکیل الرحمن کی طرف سے استثنیٰ کی درخواست دائر کرتے ہوئے کہاگیاکہ طبیعت ناسازی کی وجہ سے عدالت میں پیش نہیں ہوسکتا، جن بیماریوں میں مبتلا ہوں ان کا علاج پاکستان میں نہیں ہوسکتا، بیرون ملک جانے کیلئے متعلقہ حکام کی اجازت کا انتظار ہے ،آج حاضری سے استثنیٰ دیاجائے ۔ عدالت نے میر شکیل الرحمن کی درخواست منظور کرتے ہوئے رانا شمیم سے استفسار کیاکہ آپ نے اپنا جواب جمع کرایا ہے ،رانا شمیم نے کہامیرے وکیل راستے میں ہیں وہ پہنچنے والے ہیں، عدالت نے معاون فیصل صدیقی ایڈووکیٹ سے کہانیوز پیپر میں رپورٹنگ کا کیا معیار ہے ؟ کیونکہ انہوں نے گزشتہ سماعت پر کہا میں نے بیان حلفی ان کو نہیں دیا ،کیا صرف اسی طرح سے ہی وہ خبر شائع کر سکتے ہیں، جس پر فیصل صدیقی نے کہا توہین عدالت کے حوالے سے سیکشن موجود ہے ،خبر میں نہ رجسٹرار ہائیکورٹ اور نہ ہی عدالت کا موقف لیا گیا،حقائق کو چیک کئے بغیر کیا ایمرجنسی تھی بیان حلفی یا خبر شائع کرنے کی، مگر سوال یہ ہے کہ اگر یہ بیان حلفی ذاتی تھا تو صحافی سے سوال کیوں نہیں پوچھا گیا، چیف جسٹس نے لطیف آفریدی کی آمد پر کہا آپ صرف رانا شمیم کے وکیل نہیں ہوں گے ، عدالت کے معاون بھی ہیں، رانا شمیم نے تین سال بعد ایک بیان حلفی کیوں دیا؟ کسی مقصد کے لیے ہو گا؟ یو کے کے کسی فورم پر جمع ہوا ہو گا، اسے کوئی لاکر میں تو نہیں رکھتا،عام عوام کو تاثر دیا گیا کہ اس عدالت کے ججز پر چیف جسٹس پاکستان نے دبا ئوڈالا،یہ سٹوری شائع ہونے کی ٹائمنگ بھی بہت اہم ہے کیونکہ اپیل زیر سماعت ہے ،عدالت نے لطیف آفریدی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہاآپ کے کلائنٹ سے پوچھا گیا کہ انہوں نے یوکے میں کیوں بیان حلفی دیا؟ اگر ان کا ضمیر جاگ گیا تھا تو کسی فورم پر جمع کراتے ؟ مقصد کیا تھا ؟ لاکر میں تو کوئی نہیں رکھتا،میں آپ کو اس کیس کے حوالے سے بتانا چاہتا ہوں،اپیلیں یہاں پر زیر سماعت ہیں، میرا کنسرن کسی اور کورٹ کے ساتھ نہیں بلکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ساتھ ہے ،میں نے پروسیڈنگ اسی لیے شروع کیں کہ کسی کی ہمت نہیں کہ وہ اس عدالت کے کسی جج کو اپروچ کر سکے ،ہمارے فیصلے بولتے ہیں،آپ کے کلائنٹ نے ثابت کرنا ہے اس کا عمل بدنیتی پر مبنی نہیں تھا، برطانیہ میں بیان حلفی کیوں ریکارڈ کیاگیا، لطیف آفریدی نے کہا یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ ججز پر ایسے الزامات لگائے گئے ،چیف جسٹس نے کہا لوگوں کا اعتماد اس عدالت پر سے اٹھانے کی کوشش نہ کریں، مرحوم جسٹس وقار سیٹھ نے کبھی نہیں کہاکہ ان کو کسی نے پریشرائز کیا، ہم ججز کوئی پریس کانفرنس نہیں کرسکتے کہ اپنا موقف پیش کریں،ان ججز کو اسی طرح پریشرائز کیا جارہا ہے ، کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے حاضر سروس چیف جسٹس نے گلگت بلتستان کے چیف جج کے سامنے فون پر بات کی،دو حاضر سروس ججز کی ملاقات ہوئی اور بات تین سال بعد باہر آئی،اس عدالت کے معزز جج کا نام لیا گیا، جو ان دنوں ملک میں موجود ہی نہیں تھا،کہا گیا کہ ملزم کو الیکشن سے پہلے باہر نہیں آنا چاہیے ،لطیف آفریدی نے کہا رانا شمیم نے بیان حلفی سے انکار نہیں کیا،رانا شمیم نے بیان حلفی شائع ہونے کے لیے نہیں دیا،چیف جسٹس نے کہا آپ بتا دیں کہ کیا اس ہائیکورٹ میں کوئی مسئلہ ہے ،لطیف آفریدی نے کہاایسی کوئی بات نہیں، چیف جسٹس نے کہا یہ بیانیہ ہائی کورٹ کو نقصان پہنچا رہا ہے ،ڈاکومنٹ اس وقت کدھر ہے ؟ لطیف آفریدی نے کہا بیان حلفی برطانیہ میں ان کے پوتے کے پاس ہے ،چیف جسٹس نے کہاپاناما کیسزابھی بھی زیر سماعت ہیں،مجھے کسی اور عدالت کی فکر نہیں، مجھے اسلام آباد ہائی کورٹ کی فکر ہے اس عدالت پر تین سال بعد انگلی اٹھائی گئی، لطیف آفریدی نے کہا75 سالوں سے عدلیہ اپنی بحالی کی کوششوں میں ہے ، کاغذات درخواست گزار کے پوتے کے پاس ہیں جو سٹوڈنٹ ہے اوراسے ہراساں کیا جا رہا ہے جس پر وہ آجکل انڈر گرائونڈ ہے ،عدالت نے کہا برطانیہ میں ایسا نہیں ہوتا کہ آپ کو خطرہ ہو اور آپ انڈر گراؤنڈ ہوں، عدالت مہلت دے تاکہ وہ برطانیہ جا کر بیان حلفی لا سکیں، اٹارنی جنرل نے کہا انہوں نے جو یہ بات کی وہ بہت سنجیدہ بات ہے ،چیف جسٹس نے کہا اصل بیان حلفی پیر تک عدالت میں جمع کرائیں،اگر رانا شمیم نے یہ بیان حلفی کسی اور مقصد کے لیے بنایا ہے اور اشاعت کے لیے نہیں دیا تو اس کے نتائج ہوں گے ، الزامات کسی اور پر نہیں بلکہ اس عدالت کے ججز پر ہیں، چیف جسٹس نے لطیف آفریدی سے استفسارکیاکہ کیا آپ کہنا چاہتے ہیں کہ میرے سمیت تمام ججز کی انکوائری شروع ہوجائے ، چیف جسٹس نے کہا اصلی بیان حلفی اس عدالت کو جمع کرائیں تو پتا چلے گا،اس عدالت پر اتنا بڑا الزام لگایا گیا، اٹارنی جنرل نے کہا عدالتی تحریری فیصلے کے بعد میں نے رانا شمیم اور برطانیہ کو بھی خط لکھا، لطیف آفریدی نے کہااٹارنی جنرل یکطرفہ بات کررہے ہیں، اٹارنی جنرل نے کہا جوان لڑکے کو اگر برطانیہ میں ہراساں کیا جارہا ہے تو یہ سنگین مسئلہ ہے ،بتایا جائے اس جوان کو کون ہراساں کررہے ہیں،ہم نے خط لکھا اور کہا پاکستانی ہائی کمیشن کے ذریعے بیان حلفی دیں،رانا شمیم کا بیٹا اور پوتا اس وقت برطانیہ میں ہیں،لطیف آفریدی نے کہا بدقسمتی سے رانا شمیم کے خاندان میں حالیہ تین اموات ہوئیں،لندن جانے کی اجازت دیں تاکہ اصل بیان حلفی لیکر آئیں،اس موقع پر عدالت نے رانا شمیم کو بیرون ملک جانے سے روک دیااور کہا رانا شمیم کو بیرون ملک جانے کی ضرورت نہیں، وہ بیرون ملک نہیں جاسکتے ، چیف جسٹس نے کہا میں چیف جسٹس ہوں اور اگر میرے سامنے ایک چیف جسٹس بات کررہا ہے تو میں کیا کرونگا، جس پر لطیف آفریدی نے کہا وہ آپ کا معاملہ ہے کہ آپ کیا کریں گے ، چیف جسٹس نے کہا تمام ججز پر انگلی اٹھانا ٹھیک نہیں،عدالت نے رانا شمیم کو اصل بیان حلفی جمع کرانے کیلئے مہلت دیتے ہوئے کہا پیر تک اصل بیان حلفی جمع نہ کرایا تو فرد جرم عائد ہوگی اور سماعت پیر13 دسمبر تک ملتوی کردی ۔دوسری طرف ایڈووکیٹ جنرل اسلام آبادنیاز اللہ نیازی نے رانا شمیم کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کیلئے چیف کمشنر اسلام آباد کو خط لکھ دیاہے ، خط میں کہا گیا کہ رانا شمیم کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں توہین عدالت کی کارروائی زیرسماعت ہے ، اسلام آباد ہائیکورٹ رانا شمیم کو شوکاز نوٹس جاری کر چکی ہے رانا شمیم کا نام جلد از جلد ای سی ایل پر ڈالا جائے اگر رانا شمیم بیرون ملک روانہ ہو جاتے ہیں تو عدلیہ کی آزادی پر سنجیدہ سوال اٹھیں گے ۔ کیس کی آئندہ سماعت 13 دسمبر کو ہو گی کارروائی جلد مکمل کی جائے ۔ علاوہ ازیں لطیف آفریدی ایڈووکیٹ نے میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے کہا لوگ رانا شمیم کا پیچھا کررہے ہیں،میرا موکل کہتا ہے بیان حلفی میں جو شائع ہوا وہ درست ہے ،قانون میں جو بات تسلیم کر لی جائے اسکو ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، دیکھیں گے سوموار کو اصل بیان حلفی جمع کرانا ہے یا نہیں،جس کو دلچسپی ہے انکوائری کی وہ انکوائری کرے ۔