قومی سلامتی پالیسی صرف سکیورٹی مسائل تک ہی محدود نہیں
(تجزیہ: سلمان غنی) قومی سلامتی کے حوالے سے طے شدہ پالیسی کے عمل کو ٹائمنگ کے ساتھ علاقائی صورتحال اور خصوصاً اپنے اندرونی و بیرونی مفادات کے حوالے سے اہم پیش رفت قرار دیا جا سکتا ہے جس میں کشمیر سے سلگتے ایشو کو بنیادی حیثیت دینے کے ساتھ معیشت کو مضبوطی اور اقتصادی استحکام کو ناگزیر قرار دیا گیا ہے لیکن اس سے بھی بڑھ کر اس پالیسی کو تیار بنا کر اپنی داخلی پالیسیوں اور حکمت عملی سمیت اس پر عمل درآمد کے نظام کو موثر اور شفاف بنانا لازم ہوگا کیونکہ بڑی سیاسی حقیقت دنیا میں یہ دیکھی جا رہی ہے کہ اچھی پالیسیوں کی تشکیل سے زیادہ بڑا اور اہم کام ان پالیسیوں پر اس اسپرٹ کے مطابق عمل درآمد کرنا ہوگا۔
قومی سلامتی کے حوالے سے طے شدہ پالیسی کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہو گا کہ یہ صرف انتظامی یا سکیورٹی مسائل تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کو ساتھ اہم نکات تک وسیع تر کیا گیا ہے جن میں اہم نکتہ جیواسٹرے جیک سے جیو حقیقت کی جانا اور دوسروں کے معاملات میں بیجا مداخلت کا حصہ دار بننے سے گریز برتنا علاقائی ممالک بشمول بھارت سے اچھے تعلقات اور ماضی کی تلخیوں کو بھول کر مستقبل کی طرف پیش رفت کرنا شامل ہے قومی سلامتی کی اس پالیسی میں ایک اہم نکتہ عام شہریوں کا تحفظ اور ان کو عزت و احترام دے کر ان کے کردار کو حقیقت کی ترقی سے جوڑنا بھی شامل ہے ۔
بنیادی طور پر جب ہم عالمی یا علاقائی سطح پر چیلنجز سے نمٹنے کا عزم ظاہر کرتے ہیں تو اس کا واضح مطلب اپنے مسائل کی نشاندہی اور ان سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی اور عمل درآمد کا نظام قائم کرنا ہوتا ہے کیونکہ جب تک ہم اندرونی طور پر استحکام کا بندوبست نہیں کریں گے اس وقت تک ہم علاقائی اور عالمی چیلنجز سے نمٹنے کی پوزیشن میں نہیں آ سکتے جس کے لیے ضروری ہے کہ قومی سلامتی کی اس پالیسی کے موثر کردار کے لیے قومی اتفاق رائے بھی قائم ہو کر ہمارے مسائل کیا ہیں ان کے حل کے لیے ہمیں کیا کرنا ہے اور ان سے نمٹنے کے لیے کسی اور موثر حکمت عملی قائم کرنا ہے ۔
جب ہم معیشت کی مضبوطی کی بات کرتے ہیں تو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ حقیقت کی مضبوطی اور استحکام در اصل سیاسی استحکام سے جڑا ہوا ہے اور جب تک یہ تحریک سیاسی قوتوں کے اندر پیدا نہ ہو اور سیاسی مشاورت اس جذبہ اور ولولہ سے سرشار نہ ہو ہم مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکتے ، اس کے ساتھ ساتھ اداروں کی عزت و تکریم کو بھی لازم بنانا ضروری ہے کیونکہ یہ ایک مضبوط ریاست کے لیے ناگزیر ہے اداروں کی مضبوطی اصلاحات کے عمل سے مشروط ہے اور ادارہ جاتی عمل کی مضبوطی کو بھی ترجیحات کا ذریعہ بنانا ہوگا قومی سلامتی کی پالیسی نتیجہ خیزی کے لیے لازم ہے کہ ہم اپنے اندر سے انتہا پسندی اور شدت پسندی کا خاتمہ کریں اور جن عوام کی وجہ سے ان رجحانات سے شروغ حاصل کیا ان کا سد باب سیاسی بنیادوں پر کرنا ضروری ہے کیونکہ انتہا پسندی اور شدت پسندی کے عمل نے نہ صرف بحیثیت قوم ہمیں کمزور بنایا ہے بلکہ ان عوامل کے باعث ہماری ریاست کی ایک ساکھ بھی اثر اندازہوتی ہے قومی سلامتی کے حوالے سے پالیسی کو اور موثر اور نتیجہ خیز بنانے کے لیے لازم ہے پارلیمنٹ سمیت عام موضوع پر بحث کے لیے پیش کیا جائے تا کہ اس دستاویز کے حوالے سے قوم کے اندر شعور پیدا ہو اور اس تاثر کی نفی ہونی چاہیے کہ اس کا تعلق کس ادارے حکومت یا اشخاص کے حوالے سے ہے بلکہ اس کی پہچان قومی مفادات اور مضبوط اور خوشحال پاکستان ہونی چاہیے ۔
جہاں تک قومی سلامتی کے حوالے سے پالیسی میں کشمیر سے سلگتے ایشو کا تعلق ہے تو اس ضمن میں حکومتوں کو اپنے اندر یکسوئی اور سنجیدگی لانی ہو گی کیونکہ صرف نعروں دعوؤں اور قراردادوں سے یہ مسئلہ حل ہونے والا نہیں اور نہ ہی ملک کے اندر جلسے جلسوں اور ریلیوں کے ذریعہ کشمیریوں کو آزادی حاصل ہونا ہے اس کیلئے بڑی اور تیاری ضرورت اس حوالہ سے عالمی سطح پر اپنا موثر کیس پیش کرنا ہے اور عالمی فورم کو گرم کرنا ہے کیونکہ مسئلہ کشمیر کی بنیاد اقوام متحدہ کی قراردادوں پر ہے اور ان قراردادوں پر پیش رفت عالمی سطح پر تائید و حمایت سے ہی ممکن ہے اور اس امر کو بھی نہ بھولا جائے کہ جب ہم علاقائی سطح پر بھارت سمیت دیگر ہمسایوں سے اچھے تعلقات کی بات کرتے ہیں تو پھر اس امر کو نہ بھلایا جائے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی مسئلہ کشمیر ہے اور کشمیر کے مسئلہ کو خود بھارت اقوام متحدہ میں لیکر گیا تھا اور اب بھارت اس حوالے سے ضد اور ہٹ دھرمی پر قائم اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا نظر آتا ہے لہٰذا قومی سلامتی کے حوالے سے طے شدہ اس پالیسی کو حقیقی بنیادوں پر قومی امنگوں کا ترجمان بنانا ہوگا اور اس میں خود وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت کا طرز عمل اہم ہوگا۔