صوبائی حکومتیں مضبوط بلدیاتی نظام کیوں ہضم کرنے کوتیارنہیں؟

صوبائی حکومتیں مضبوط بلدیاتی نظام کیوں ہضم کرنے کوتیارنہیں؟

(تجزیہ:سلما ن غنی ) بلدیاتی اداروں کے انتخابات کے امکانات اور نتائج کے ساتھ بلدیاتی نظام پر سیاسی قوتوں کے درمیان جاری محاذ آرائی کا عمل ظاہر کر رہا ہے کہ سیاسی جماعتیں پاکستان میں بلدیاتی انتخابات کرانے میں سنجیدہ نہیں ۔

وہ کوئی ایسا موثر اور فعال بلدیاتی سسٹم بھی قائم نہ کر سکیں جس کو کہا جاسکے کہ پاکستان میں بنیادی جمہوریت کے یہ ادارے اپنے مقاصد کے حصول کیلئے سرگرم ہیں ۔ ویسے تو آئین پاکستان کی دفعہ 140اے اور دیگرمیں جہاں ان اداروں کی اہمیت و حیثیت کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان اداروں کو مالی سیاسی اور انتظامی خود مختاری حاصل ہو گی اور صوبائی حکومتیں ان اداروں کو وجود میں لانے کی پابند ہوں گی لیکن ان اداروں کے انتخابات کیلئے عرصہ مکمل نہ کرنے کے عمل کے باعث ان اداروں کو وہ آئینی تحفظ حاصل نہیں رہا جو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو حاصل ہے ۔ جس کے ذریعے کہا گیا کہ کسی بھی حکومت کے خاتمے کی صورت میں پابندی ہوگی کہ نئی اسمبلیوں کا قیام 90روز میں یقینی بنایا جائیگا ۔

یہی بات بلدیاتی اداروں کے حوالے سے نہ ہونے کا فائدہ حکومتیں اٹھاتی ہیں لہٰذا نئی پیدا شدہ صورتحال میں اب اس امر کا جائزہ لینا ہو گا کہ کیا پختونخوامیں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلہ کے بعد دوسرا مرحلہ اور دیگر صوبوں میں بلدیاتی عمل مکمل ہو گا ؟کیا وجوہات ہیں کہ بلدیاتی انتخابات میں میئرز اور چیئرمین ضلع کونسل کے براہ راست انتخابات کے اعلان کے بعد بڑی سیاسی جماعتیں اس عمل سے خوفزدہ نظر آ رہی ہیں ۔ تاریخ کو اٹھا کر دیکھا جائے تو بلدیاتی انتخابات کا عمل زیادہ تر ڈکٹیٹر شپ میں ہی تکمیل کو پہنچا جبکہ منتخب حکومتیں بلدیاتی انتخابات نہ کرانے کے ساتھ بلدیاتی سسٹم کو بھی ہضم کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتیں ۔ماضی میں مسلم لیگ ن نے دو مرتبہ بلدیاتی انتخابات کروائے مگر بعد ازاں بلدیاتی قیادت کے چناؤ میں غیر معمولی تاخیر برتی گئی اور اس طرح پختونخوامیں تحریک انصاف نے ایک مرتبہ بلدیاتی انتخابات کروائے اور اس کا فائدہ بھی حاصل کیا ۔

بڑی سیاسی حقیقت یہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات حکومتوں کے بجائے اب بھی عدالت عظمیٰ کے واضح احکامات کے بعد الیکشن کمیشن کے دباؤ پر ہو رہے ہیں ۔ کیا پختونخوا کے پہلے مرحلہ کے بعد بلدیاتی عمل آنے والے عام انتخابات سے پہلے ممکن ہو پائے گا؟ دوسرا مرحلہ 27مارچ کو شروع ہو رہا ہے ۔ پنجاب میں ابھی تک بلدیاتی ایکٹ بھی نہیں بن سکا اور ایسی اطلاعات ملی ہیں کہ بلدیاتی سسٹم کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان غیر اعلانیہ ڈائیلاگ حتمی پوزیشن پر پہنچ چکا ہے ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے خود حکومت اور مسلم لیگ ن کی قیادت پریشان نظر آتی ہے ۔ ویسے بھی پختونخواکے پہلے مرحلہ میں حکمران جماعت کو ہونے والی شکست کے بعد پنجاب میں حکومت اور حکمران جماعت پر ان انتخابات کا بخار سر پر سوار نظر آتا ہے ۔

انتخابات سے پیچھا چھڑوانا اس لیے ممکن نہیں کہ عدالت عظمیٰ سے فیصلہ کے بعد الیکشن کمیشن اس ضمن میں کوئی لچک دینے کو تیار نہیں ۔ سندھ حکومت کی جانب سے بلدیاتی ایکٹ پاس ہو جانے کے بعد سے اب تک اپوزیشن جماعتیں خصوصاً پی ٹی آئی، ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی اس سسٹم کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔مگر سندھ میں پیپلز پارٹی نے ہمیشہ بلدیاتی اداروں کو اپنے کنٹرول میں رکھا ۔ جماعت اسلامی کی بلدیات کے حوالے سے ایک روشن تاریخ ہے اور شہر میں بے مثال ترقیاتی عمل کے باعث آج بھی کراچی کے عوام اسے یاد کرتے نظر آتے ہیں جبکہ ایم کیو ایم کی تاریخ اس حوالے سے کوئی زیادہ روشن نہیں، لیکن اس وقت سندھ کی سطح پر بلدیاتی انتخابات سے بڑا مسئلہ خود اس کا سسٹم بنا ہوا ہے ،جس پر پیپلز پارٹی لچک دینے کو تیار نہیں لیکن انتخابی عمل کے حوالے سے اسے زیادہ پیش رفت کرنا ہو گی ۔

یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر سیاسی جماعتیں ملک میں مضبوط بلدیاتی سسٹم کی خواہاں ہیں تو پھر انہیں ملکی سطح پر قابل عمل بلدیاتی سسٹم بنانا ہو گا جس میں صوبوں کی مداخلت کم از کم ہو اور مقامی اور حلقوں کی سطح پر ایسا بندوبست قائم ہو جو اپنے ہاں ترقیاتی عمل کے ساتھ عوام کو درپیش مسائل کا حل یقینی بنا سکے ۔ بڑا المیہ یہ ہے کہ 18ویں آئینی ترمیم کے تحت صوبوں کے مرکز سے تو اختیارات سمیٹے اور وسائل پر قابض ہوئے مگر صوبوں کے اختیارات اور وسائل اضلاع کو منتقل نہ کیے ۔اسی وجہ سے مقامی مسائل اپنی انتہاؤں کو چھو رہے ہیں ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں