جبری گمشدگیاں، ریاست خود ملوث ہو تو تفتیش کون کریگا : اسلام آباد ہائیکورٹ

جبری گمشدگیاں، ریاست خود ملوث ہو تو تفتیش کون کریگا : اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد(اپنے نامہ نگارسے )چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا جبری گمشدگیوں کے کیس میں مشکل ہی یہ ہے کہ ریاست خود ملوث ہو تو تفتیش کون کرے گا؟۔

وفاقی حکومت کی جانب سے ایک واضح پیغام آنا چاہیے کہ اس معاملے کو برداشت نہیں کیا جائے گا،چیف جسٹس نے لاپتاافراد کی بازیابی کیلئے دائر درخواستوں میں جبری گمشدگیوں کے ہائیکورٹ میں زیر سماعت کیسز کی لسٹ اٹارنی جنرل کو فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیسز کی موثر تفتیش کیلئے تین ہفتوں کی مہلت دے دی۔لاپتا صحافی و بلاگر مدثر نارو کے گمشدگی کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا تمام کوششوں کے باوجود کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکل سکا، مدثر نارو کی فیملی کی وزیراعظم سے ملاقات بھی کرائی گئی ہے ،گزشتہ ایک دہائی کے دوران کافی تعداد میں لوگ غائب ہوئے ۔

تمام جبری گمشدگی میں نہیں آتے ،اکثر لوگوں نے جہاد میں شرکت کیلئے ملک کو چھوڑا،پاکستان کو دہشت گردی کا سامنا رہا،کچھ لوگ خیبرپختونخوا کے حراستی مراکز میں ہیں، چیف جسٹس نے کہا وفاقی حکومت کی ایک پالیسی کے تحت لوگوں کو اٹھایا گیا، اس پر کیا کہیں گے ؟،مسنگ پرسن کے والد نے کہامیرے دونوں بیٹے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس تھے جنہیں 2016 میں اٹھایا گیا،ایک ایل ایل بی اور دوسرا ماس کمیونی کیشن ڈیپارٹمنٹ میں پڑھ رہا تھا،چیف جسٹس نے کہاکہ جبری گمشدگیوں کے کمیشن کا صرف یہی کام رہ گیا ہے کہ وہ ایف آئی آر درج کرائے ،دن دہاڑے لوگوں کی موجودگی میں وفاقی دارالحکومت سے ان کے دو بچوں کو اٹھا لیا گیا،اٹارنی جنرل نے کہامیرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں، چیف جسٹس نے کہاریاست نہیں کہہ سکتی کہ اس کے پاس کوئی جواب نہیں، تفتیش میں کیا ہوا؟۔

سینکڑوں افراد جبری گمشدگیوں کے خلاف سڑکوں پر ہیں،ایس ای سی پی کے ملازم کو بھی اٹھایا گیا تھا،ایک صحافی کو اٹھایا گیا جس کی سی سی ٹی وی فوٹیجز بھی دستیاب ہیں، کیا ہوا؟ کچھ بھی نہیں؟،ایک بیچارے نے کہا تھا کہ وہ شمالی علاقہ جات گیا تھا،اٹارنی جنرل نے کہاقانون نافذ کرنے والے ادارے بتا سکتے ہیں،چیف جسٹس نے کہامسنگ پرسنز کی فیملیز یہاں پھر رہی ہیں، کون یہ کر رہا ہے ؟ حکومت اور وفاقی کابینہ جواب دہ ہے ، چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت کس کو ذمہ دار ٹھہرائے ؟اٹارنی جنرل نے کہاکہ آئی جی اسلام آباد سے اس متعلق رپورٹ منگوا لیں،چیف جسٹس نے کہا آئین کے مطابق آرمڈ فورسز بھی وفاقی حکومت کی منظوری کے بغیر کچھ نہیں کر سکتیں،کسی کو یہاں سمن کرنا مسئلے کا حل نہیں، آپ اس کورٹ کو حل بتائیں،اگر وفاقی دارالحکومت کا یہ حال ہے تو باقی جگہوں کی کیا صورتحال ہو گی؟، اس عدالت کی حدود سے ایک شخص کو اٹھایا گیا اور اس کی تحقیقات میں کچھ نہ ہوا،یہ ایسی بات ہے کہ ریاست کو ہل جانا چاہیے ایسے واقعات سے نان سٹیٹ ایکٹرز کی بھی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور وہ بھی ایکٹو ہو جاتے ہیں،عدالت رپورٹ نہیں ایکشن چاہتی ہے ۔

اٹارنی جنرل نے کہاکہ نواز شریف، یوسف رضا گیلانی اور عمران خان سمیت کسی کی یہ پالیسی نہیں تھی کہ لوگوں کو غائب کیا جائے ،چیف جسٹس نے کہاکہ مجھے خدشہ ہے کہیں یہ ان کی پالیسی ہی یہ رہی ہو، ان میں سے کسی نے لاپتا افراد کیس میں کوئی کارروائی نہیں کی، اٹارنی جنرل نے کہاکہ اگر ایک دفعہ کسی کو سزا ہو جائے تو یہ اچھا میسج جائے گا،جس کیس میں سی سی ٹی وی فوٹیج دستیاب ہے اس کیس سے شروع کر لیتے ہیں ، اگر کسی کی نشاندہی ہو جائے اور چیف ایگزیکٹو نہ ایکشن لیں تو وہ جوابدہ ہیں،چیف جسٹس نے کہاکہ ایک چیف ایگزیکٹو نے کتاب میں لکھا کہ یہ پالیسی تھی،اٹارنی جنرل نے کہاکہ وہ غاصب تھے ، انہیں منتخب چیف ایگزیکٹوز کے ساتھ نہ ملایا جائے ،وہ تو مکا بھی دکھا رہے تھے اور اب مفرور ہیں، میں منتخب کی بات کرتاہوں، میں آخری تین منتخب وزرائے اعظم کی بات کرتاہوں۔

ان وزرائے اعظم کی وہ پالیسی نہیں تھی جو کتاب والے صاحب کی تھی، عدالت نے کہاکہ 2016ء میں تو منتخب وزیر اعظم تھے پھر بچے کس نے اٹھائے ، ان کے ذمہ داران کے خلاف کہاں کارروائی کی گئی تھی، اٹارنی جنرل نے کہاکہ میرے لیے کہنا آسان ہے کہ جس دور میں گمشدگیاں ہیں اس وقت کے چیف ایگزیکٹو کو ذمہ دار ٹھہرائیں لیکن میں ایسا نہیں کہوں گا، چیف جسٹس نے کہا جبری گمشدگیوں کے کیس میں مشکل ہی یہ ہے کہ ریاست خود ملوث ہو تو تفتیش کون کرے گا؟، عدالت نے کہا اٹارنی جنرل تین ہفتوں میں مطمئن کریں کیا اقدامات کیے گئے ، عدالت نے سماعت14فروری کیلئے ملتوی کردی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں