صدارتی نظام پر بحث کے بجائے بحرانوں سے نمٹنے کی ضرورت

صدارتی نظام پر بحث کے بجائے بحرانوں سے نمٹنے کی ضرورت

(تجزیہ : سلمان غنی) ملک کے اندر نظام کی تبدیلی خصوصاً صدارتی نظام کے حوالے سے ایک بحث شروع ہے جس کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ملک میں جاری و ساری پارلیمانی نظام نتائج کی فراہمی میں ناکام رہا۔

 لہٰذا ملک کو معاشی بحران اور سیاسی طوفان سے نکال کر استحکام کی منزل پر لے جانے کیلئے ضروری ہے کہ صدارتی نظام کی جانب پیش رفت کی جائے لیکن ایسے کہنے والے یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ آئین پاکستان کی موجودگی میں صدارتی نظام کیونکر اور کیسے ممکن بن سکتا ہے ۔ صدارتی نظام کے اثرات بھی ملک وقوم کے حوالے سے اچھے نہ رہے ویسے تو اب تک جاری اس بحث کا سرپیر کوئی نہیں اور کوئی بھی بظاہر اس حوالے سے سیاسی محاذ پر آ کر اس کا کیس لڑنے کو تیار نہیں۔ سنجیدہ حلقے اسے ملک کو درپیش مسائل خصوصاً معاشی بحران اور مہنگائی کے طوفان سے توجہ ہٹانے کی ایک سوچی سمجھی سازش اور کاوش قرار دے رہے ہیں ۔

پاکستان کے حالات پر نظر دوڑائی جائے تو یہ یہاں کے حالات سے مطابقت نہیں رکھتا پاکستان میں یہ سسٹم اس لیے سود مند نہیں کیونکہ پاکستان ایک وفاق ہے اور اس میں ایک صوبہ آبادی کے حوالے سے باقی تین صوبوں سے بڑا ہے اور تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب بھی پاکستان میں صدارتی نظام نافذ رہا اس کے ناقابل تلافی نقصانات سامنے آئے جس میں سانحہ مشرقی پاکستان ، صوبوں کے عوام میں احساس محرومی میں اضافہ ،اقتدار کا بعض افراد کے ہاتھوں میں مرتکز ہونا اور عوامی خواہشات کے برعکس فیصلہ سازی کا عمل شامل ہے ، پاکستان کے اہل سیاست میں کم از کم اس امر پر اتفاق رائے رہا کہ پاکستان کے کروڑوں عوام کے شعور پر اعتماد کے ذریعہ ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے لیکن اس بحث کے تجزیہ میں یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ آخر کیونکر اس بحث کا آغاز ہوتاہے ۔

آج کی ضرورت پارلیمانی سسٹم کی بجائے صدارتی نظام میں تبدیلی نہیں بلکہ خود پارلیمانی سسٹم کی خامیاں دور کرنے اور اس میں اصلاحات ہیں،حکومت کو لوگوں کے مسائل کے حل کا ذریعہ بننا چاہئے ،عوام کی حالت زار میں بہتری تبھی ممکن بنے گی جب سسٹم ڈلیور کرتا نظر آئے گا۔پاکستان کے حوالے سے محدود رائے یہی ہے کہ یہاں صدارتی نظام ہمارے زمینی حقائق اور سیاسی ضروریات سے مطابقت نہیں رکھتا بڑی وجہ پاکستان کا وفاق ہونا ہے اور ایک صوبے کے بہت بڑا ہونے کے باعث یہ تاثر غالب ہے کہ وفاق پاکستان پر غالب رہے گا اس میں انتظامیہ نہ تومقننہ سے منتخب ہوتی ہے اور نہ ہی وہ اسے جواب دے ہوتی ہے صدر ایک بار منتخب ہو جائے تو پھر اس کے سر پر کوئی تلوار لٹکتی نظر نہیں آتی مگر وزیراعظم کے انتخاب کے باوجود اس پر مقننہ کاچیک ہوتا ہے ۔

آج یہ بحث کہاں سے شروع ہوئی کیونکر شروع ہوئی بڑی بات یہ ہے کہ بحث کا آغاز اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے کیا جاتا ہے اور جب حکمران عوام کو مطمئن کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو اس طرح کی بحث کا آغاز شروع کرا دیا جاتا ہے تاکہ حکمران عوام کو جواب دہ نہ ہوں لہٰذا حکمرانوں کی ناکامی اور نااہلی کو پارلیمانی نظام کی ناکامی قرار نہیں دیا جا سکتا جمہوری اور خصوصاً پارلیمانی سسٹم میں بنیادی بات مسائل کا حل ہے گورننس کو یقینی بنانا ہے اصلاحات کا عمل ہے ایسا کیونکر ممکن نہیں ہوتا کہ حکمرانوں سے پوچھا جائے صدارتی نظام کی بحث اجاگر ہوتی، تو اس سے بے یقینی بڑھتی ہے اچھا خاصا رینگتا نظام تھم سا جاتا ہے اور مستقبل کے حوالے سے خدشات پیدا ہو جاتے ہیں لہٰذا اس صورتحال سے بچنے اور اس سے نکلنے کا بہترین ذریعہ یہی ہے کہ حکومت اپنے اصل کام پر توجہ دے اور اہل سیاست کو بھی چاہئے کہ خود اپنے سسٹم کی کامیابی کے لئے مثبت کردار ادا کریں۔ پارلیمانی سسٹم میں بنیاد پارلیمنٹ ہوتی ہے پارلیمنٹ مسائل کے حل کا ذریعہ نہیں بنے گی تو پھر کسی صدارتی نظام کی بحث زور پکڑ سکتی ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں