توہین عدالت کیس: سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم پرفرد جرم عائد، صحافیوں کیخلاف موخر

توہین عدالت کیس: سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم پرفرد جرم عائد، صحافیوں کیخلاف موخر

اسلام آباد(اپنے نامہ نگارسے )اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے سابق چیف جج گلگت بلتستان کے بیان حلفی اور خبر کی اشاعت پر توہین عدالت کیس میں رانا شمیم کی شفاف انکوائری اور اٹارنی جنرل آف پاکستان کو کیس سے الگ کرنے کی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے رانا شمیم کی حد تک فردجرم عائد کردی،

عدالت نے صحافیوں کے خلاف فرد جرم کی کارروائی موخر کر دی اورکہا اگر سماعت کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ یہ جان بوجھ کر کیا گیا تو ان کے خلاف بھی کارروائی ہوگی۔اٹارنی جنرل خالد جاوید خان، ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود،عدالتی معاونین ناصر زیدی، فیصل صدیقی، سابق چیف جج رانا شمیم، میر شکیل الرحمن، انصار عباسی عدالت میں پیش ہوئے ،چیف جسٹس نے کہاآپ روسٹرم پر آجائیں ،رانا شمیم نے استدعا کی کہ میرے وکیل کو آنے دیں، میں نے دو نئی درخواستیں دائر کی ہیں۔

چیف جسٹس نے کہاعدالت پہلے چارج فریم کرے گی،پھر درخواستیں دیکھے گی،عدالت نے وکیل عبداللطیف آفریدی کے آنے تک سماعت میں وقفہ کردیا، دوبارہ سماعت شروع ہونے پر چیف جسٹس نے کہااس عدالت کی بہت بے توقیری ہو چکی ہے ،کیا اس عدالت کے ساتھ کسی کو کوئی مسئلہ ہے ،اس عدالت کو ہی فوکس کر کے بیانیہ بنایا جا رہا ہے ،ایک آئینی عدالت کے ساتھ بہت مذاق ہوگیا،اسلام آباد ہائیکورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے صدر ثاقب بشیر نے استدعا کی کہ اٹارنی جنرل اور عدالتی معاونین بھی کہہ چکے ہیں کہ صحافیوں کی حد تک تحمل اختیار کیا جائے ، سینئر صحافی افضل بٹ نے کہا جس پوائنٹ پر آپ اور ہم سب کو فوکس ہونا چاہیے بدقسمتی سے نہیں کرسکے ۔

ہم زیر سماعت کیسز پر رپورٹنگ اور تبصرے کے حوالے سے مختلف میٹنگز کر رہے ہیں، ہمیں موقع دیں ہم سبجوڈس معاملے پر احتیاط کریں گے ،چیف جسٹس نے کہاکہ ہم نے کئی بار سمجھایا مگر انکو لگ رہا ہے کہ انہوں نے جو کیا وہ ٹھیک کیا،رانا شمیم نے بیان حلفی میں سنگین الزامات عائد کیے ،ہمیں کچھ نہیں چھپانا، نہ چھپائیں گے ،جولائی 2018ء سے آج تک بتائیں کہ کون سا حکم کسی کی ہدایت پر جاری ہوا؟، چیف جسٹس نے کہاعدالت اجازت نہیں دے سکتی کہ کوئی بھی سائل آ کر اس طرح عدالت کی بے توقیری کرے ۔

آپ کو احساس تک نہیں کہ زیر سماعت کیس پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی،جولائی 2018 سے لے کر آج تک کوئی آرڈر ہوا ہے جس پر یہ بیانیہ فٹ آتا ہو؟،ایک اخبار کے ایک آرٹیکل کا تعلق ثاقب نثار سے نہیں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ساتھ ہے ،لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ اس کورٹ کے ججز کمپرومائزڈ ہیں، ایک کیس دو دن بعد سماعت کے لیے فکس تھا جب سٹوری شائع کی گئی، افضل بٹ نے کہا یہ بات حلف پر کہنے کو تیار ہوں کہ صحافی اس کورٹ پر مکمل یقین رکھتے ہیں،ہم سمجھتے ہیں یہ کورٹ آخری امید ہے ،چیف جسٹس نے کہا اگر کوئی غلطی تھی تو ہمیں بتا دیں ہم بھی اس پر ایکشن لیں گے ،اس موقع پر سینئر صحافی ناصر زیدی نے کہا مجھے بھی کچھ کہنے کی اجازت دی جائے ،چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کو کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں، ہم پہلے بھی کہہ چکے کہ ان کا ثانوی کردار ہے ۔

کل کو کوئی بھی تھرڈ پارٹی ایک کاغذ دے گی اور اس کو ہم چھاپ دیں گے تو کیا ہو گا؟،اتنا بڑا اخبار کہے کہ انہوں نے اس حوالے سے کوئی قانونی رائے نہیں لی تو پھر یہ زیادتی ہو گی،جولائی 2018 سے آج تک بتادیں کہ اس عدالت کا کونسا فیصلہ غلط ہے ،اس عدالت نے بہت محنت سے لوگوں کا اعتماد بحال کرنے کی کوشش کی ہے ،اخباری سٹوری کا ثاقب نثار یا کسی اور سے کوئی تعلق نہیں،اس اخباری سٹوری میں اسی عدالت پر سوال اٹھایا گیا، باہر سے لوگوں کا عدالت پر اعتماد اٹھانے کی کوشش کی جارہی ہے ، ناصر زیدی نے کہاتوہین عدالت کی کارروائی سے دنیا بھر میں غلط میسج جائے گا، عدالت خود آزادی اظہار رائے کے حق میں ہے ،صحافیوں کی حد تک تحمل کا مظاہرہ کیاجائے آئندہ ایسا کوئی موقع عدالت کو فراہم نہیں کریں گے ،چیف جسٹس نے کہایہ ہمارے لیے سیکھنے کا عمل ہے ،آپ چاہتے ہیں کہ میں ریسرچ پیپر لکھوں،آزادی اظہار رائے نہیں ہو گی تو آزاد عدلیہ بھی نہیں ہو گی،یہ چیزیں پہلے بھی ہوئیں اور ہوتی رہیں گی، مگر اس میں قصور ہمارا بھی ہے ،اٹارنی جنرل نے کہامیری مودبانہ درخواست ہو گی کہ رانا شمیم پر چارج فریم اور باقیوں کی حد تک چارج موخر کیا جائے ،اٹارنی جنرل نے کہاآپ نے بالکل صحیح کہا کہ فوکس اس عدالت پر ہی تھا ،آج پہلی بار میڈیا کی جانب سے دبے لفظوں میں ندامت ہے ،صحافیوں کی حد تک اس کیس میں چارج فریم کو ختم کیا جائے ، عدالتی معاون فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہاصحافتی تنظیم نے بڑی اچھی بات کی ہے ، یہی بات میڈیا پرسنز بھی کر دیں،ان کی طرف سے بھی ایسا جملہ آنا چاہیے کہ وہ آئندہ مزید محتاط رہیں گے ، اس کیس میں تمام فریقین کو ندامت ہونی چاہیے ،چیف جسٹس نے کہااگر کہیں پر یہ ثابت ہو جائے کہ انہوں نے جان بوجھ کر ایسا کیا تو اس کے نتائج خطرناک ہیں۔

فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا جس اخبار کی پروسیڈنگز چل رہی تھیں اسی اخبار نے عالمی تنظیموں کے بیانات بھی چھاپے ،اس میں انکوائری پہلے کروا لیں، اٹارنی جنرل نے کہاکہ میں اس بات کی مخالفت کروں گا، رانا شمیم نے کہا بیان حلفی سے متعلق کسی کو بتائے بغیر 10 نومبر 2021 کو سربمہر کیا اور انگلینڈ میں نواسے کے حوالے کیا،30 اکتوبر 2021 کو امریکا میں سمپوزیم میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی جس کا موضوع پاکستان میں جوڈیشل ایکٹوزم تھا،6 نومبر کو بھائی کی وفات کی اطلاع ملی تو پاکستان کی ڈائریکٹ فلائٹ نہ مل سکی اس لیے برطانیہ کی ٹرانزٹ فلائٹ کے ذریعے واپس آیا،بھائی کی وفات سے قبل بھی چار ماہ کے دوران خاندان میں چار قریبی رشتہ داروں کی اموات ہوئیں اور اس وجہ سے افسردہ تھا،خاندان کے قریبی افراد کی موت کے بعد اپنے علم میں موجود واقعہ جلد از جلد تحریری شکل میں لانے کی اہمیت کا احساس ہوا ،یہ بات سپریم جوڈیشل کونسل کو اس لیے نہیں بتائی کیونکہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اس وقت خود سپریم جوڈیشل کونسل کے سربراہ تھے ،علاوہ ازیں یہ واقعہ پاکستان کی حدود سے باہر پیش آیا اور اس واقعہ کے ایک ماہ بعد عہدے سے بھی ریٹائر ہو گیا،بیان حلفی میں بیان کردہ حقائق میں وہی کچھ بیان کیا گیا جو خود سنا،یہ حقائق زندگی بھر بیان نہ کرنے کا ارادہ تھامگر مرحومہ اہلیہ سے کیا گیا وعدہ اور فیملی ممبرز کی اموات کے بعد حالات کے باعث حقائق کوبیان حلفی کی شکل میں ریکارڈ کیا،یہ بات بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ بیان حلفی میں بیان کردہ حقائق کی تصدیق انکوائری کے ذریعے کی جائے۔

انصاف کے حصول کے لیے یہ بھی انتہائی ضروری ہے کہ سابق چیف جسٹس کا جوابی حلف نامہ بھی انکوائری کے سامنے پیش کیا جائے اور جرح کا موقع دیا جائے ،بیان حلفی میں بیان کردہ حقائق غلط ثابت ہونے تک یہ کریمنل توہین کا کیس نہیں بنتا،اگر بیان حلفی میں بیان کردہ حقائق درست ثابت ہو جائیں تو کیس ہی ختم ہو جائے گا جو کہ منصفانہ انکوائری سے ہی ممکن ہے ،بیان حلفی کی تشہیر کا کبھی کوئی ارادہ نہ تھا اس لیے اسے خفیہ رکھا اور پاکستان سے باہر ریکارڈ کرایا،اس عدالت کے ججز کا احترام ہے جو آزاد ہیں اور قانون کے مطابق فیصلے کرتے ہیں، استدعا ہے کہ توہین عدالت کی فرد جرم عائد کرنے کی بجائے حقائق جاننے کے لیے انکوائری شروع کی جائے ، رانا شمیم نے کہا میری طبیعت خراب ہے ، بیان حلفی کی غیرجانبدارانہ انکوائری کرائی جائے ،عدالت نے رانا شمیم کی شفاف انکوائری اور اٹارنی جنرل کو الگ کرنے سے متعلق دونوں درخواستیں مسترد کردیں اور رانا شمیم پر فردجرم عائد کرتے ہوئے استفسار کیاکہ کیا آپ چارج فریم کو مانتے ہیں؟ جس پر رانا شمیم نے صحت جرم سے انکار کردیا۔

چیف جسٹس نے کہا رانا صاحب آپ ماشاء اللہ چیف جج رہ چکے ہیں،آپ نے بھی توہین عدالت کے کیسز سنے ہوں گے ،رانا شمیم نے کہا میں نے کبھی توہین عدالت کا کیس نہیں سنا، میں اس پر یقین نہیں رکھتا،چیف جسٹس نے کہاآپ کو معلوم ہے کہ چارج فریم کا مطلب ہی یہ ہے کہ آپ کو موقع ملے گا،آپ کا الزام اس کورٹ سے متعلق ہے ،رانا شمیم نے کہامیں تو آپ اور جسٹس عامر فاروق کے سامنے پیش ہوتا رہا ہوں،میں اور اٹارنی جنرل کے والد صاحب اکٹھے پریکٹس کرتے رہے ہیں،مجھے نہیں معلوم کہ یہ کیوں پہلے دن سے میرے خلاف ہیں؟، چیف جسٹس نے کہاکہ آپ سے پوچھا تھا کہ کیا نوٹری پبلک کے خلاف آپ نے کوئی کارروائی شروع کی؟،ہم آپ پر چارج فریم کر رہے ہیں، آپ فرد جرم سنیں،فردجرم میں کہاگیاکہ بیان حلفی کو نوٹرائزڈ کرایا گیا جو میڈیا تک پہنچا،بیان حلفی 15نومبر کو دی نیوز اور جنگ میں شائع ہوا،آپ نے جواب میں کہا کہ بیان حلفی نوٹرائزڈ کرا کے سیل کیا اور نواسے کے حوالے کیا، کوریئر سروس سے بیان حلفی موصول ہوا،آپ نے کہا ہو سکتا ہے کہ بیان حلفی نوٹری پبلک سے لیک ہوا ہو، آپ نے نوٹری پبلک اور انصار عباسی کے خلاف کوئی کارروائی شروع نہیں کی،آپ نے عدالت کو سکینڈلائز کرنے کی کوشش کی،آپ نے اپنے کنڈکٹ سے زیر التوا کیس پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی،آپ کو اوپن کورٹ میں تمام الزامات پڑھ کر سنا دیئے گئے ہیں، آپ کیا کہتے ہیں؟، اس موقع پر رانا شمیم نے کہا پہلے آپ الزامات کی فرد جرم کی کاپی مجھے دیں۔

چیف جسٹس نے کہاکہ آپ الزام تسلیم کرتے ہیں یا نہیں؟، رانا شمیم نے کہاکہ کچھ باتیں تسلیم کرتا ہوں اور کچھ نہیں،چیف جسٹس نے کہا آپ اپنے دفاع میں کچھ کہنا چاہتے ہیں تو تحریری طور پر جمع کرائیں، رانا شمیم نے کہامیں اکیلا ہوں، اگر آپ نے یہی سوچ لیا ہے تو پھر مجھے آج ہی سزا سنا دیں، میرا وکیل بھی موجود نہیں، مجھے پھر لٹکا دیں، آپ مجھے سنگل آؤٹ کیوں کر رہے ہیں؟ مجھے کراچی سے آنا پڑتا ہے ، مارچ کی کوئی ڈیٹ دے دیں، عدالت نے کہا آپ کو آنا پڑے گا، آپ کے خلاف چارج فریم ہوگیا،رانا شمیم نے کہا میں جتنی عزت اس عدالت کی کرتا ہوں، شاید ہی کوئی اور کرتا ہو،میں بہت ڈسٹرب ہوں، 20 یا 25 فروری تک کی تاریخ دیں ، عدالت نے اٹارنی جنرل کی استدعا پر سماعت 15 فروری تک ملتوی کردی اور کہا اس معاملے کو عارضی طور پر نمٹاتے ہیں، اگر صحافیوں نے ایسا کچھ کیا تو چارج فریم کیا جائے گا۔مزیدبرآں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ڈویژن بینچ نے رانا شمیم کی کردار کشی روکنے اور پی ٹی آئی رہنمائوں کی نااہلی کیلئے دائر انٹراکورٹ اپیل مسترد کردی۔

رانا شمیم کی بہو، پوتے اور پوتی کی انٹراکورٹ اپیل قابل سماعت ہونے پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے سنگل بینچ کا فیصلہ برقرار رکھا اور انٹرا کورٹ اپیل مسترد کرنے کا حکم سنادیا۔ مزیدبرآں چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے عبوری حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ کھلی عدالت میں رانا شمیم پر فرد جرم عائد کی گئی، آزاد میڈیا ہی آزاد عدلیہ کیلئے ضروری ہے ،آزادی اظہار کا مطلب دیگر اداروں کا احترام بھی ہے ،صحافی رہنماؤں نے بتایا کہ صحافی پہلے ہی مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔

پی ایف یو جے کے صدر ناصر زیدی دیگر صحافی رہنماؤں کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئے ،رانا شمیم نے فرد جرم عائد کرنے کی بجائے انکوائری کی استدعا کی،فرد جرم عائد کرنے کا مقصد شفاف منصفانہ انصاف فراہم کرنا ہے ،رانا شمیم کچھ عرصہ کیلئے سندھ ہائیکورٹ کے جج بھی رہے ،بعد ازاں رانا شمیم کو تین سال کیلئے گلگت بلتستان کا چیف جج لگادیا گیا،رانا شمیم کی اٹارنی جنرل کو کیس سے الگ کرنے اور انکوائری کروانے کی درخواستوں کو مسترد کیا جاتا ہے ،رانا شمیم پر توہین عدالت کے 9 الزامات عائد کیے گئے ۔

چارج شیٹ کے مطابق رانا شمیم نے صحافی کو بیان حلفی شائع کرنے سے نہیں روکا،رانا شمیم کے بقول بیان حلفی خفیہ تھا تو لیک ہونے پر کوئی کارروائی نہیں کی،رانا شمیم نے بیان حلفی کے ذریعے زیر التواء کیس پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی، رانا شمیم نے عدلیہ کو سکینڈلائز کرنے کیلئے بیان حلفی لیک کیا،عدالت کایہ بھی کہناہے کہ رپورٹر، ایڈیٹر کے لاپرواہ کنڈکٹ کے باوجود عدالت تحمل کا مظاہرہ کر رہی ہے ،ابھی تک ایسے ڈائریکٹ شواہد نہیں کہ خبر کا مقصد عدالت پر اثر انداز ہونا تھاٹرائل کے دوران ایسے شواہد سامنے آئے تو صحافیوں کیخلاف بھی کارروائی ہو گی،ماضی میں عدالتوں سے باہر ٹرائل پر چیک نہیں رکھا گیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں