سیاسی قوتیں نئے صوبوں کیلئے عملاًپیشرفت کیلئے تیار نہیں

سیاسی قوتیں نئے صوبوں کیلئے عملاًپیشرفت کیلئے تیار نہیں

(تجزیہ :سلمان غنی) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام کو عملی جامہ پہنانے کیلئے درکار آئینی ترمیم پرپارلیمانی رہنماؤں سے تعاون طلب کیا گیا ہے ۔اس ضمن میں شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کو مکتوب بھجوائے گئے ہیں جن میں ان سے مذکورہ مقصد کی تکمیل کیلئے مدد کی درخواست کی گئی ہے ۔

جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کا اعلان تحریک انصاف نے عام انتخابات سے قبل کیا تھا اور وعدہ کیا تھا کہ جنوبی پنجاب صوبہ کو حقیقت کا رنگ دیا جائے گا لیکن حکومت بننے کے بعد باقاعدہ جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کیلئے عملاً تو کوئی پیش رفت نہ ہوئی مگر اس حوالے سے آنے والے دباؤ سے نکلنے کیلئے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا قیام عمل میں لایا گیا اور کہا گیا کہ اس سیکرٹریٹ کے قیام کے ذریعہ جنوبی پنجاب کے عوام کو درپیش مسائل کا حل ملتان اور بہاولپور میں ہی ممکن بن سکے گا ۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا واقعتاً نئے صوبے قومی ضرورت ہیں۔ سیاسی قوتیں نئے صوبوں کیلئے عملاًپیشرفت کیلئے تیار نہیں۔جنوبی پنجاب صوبہ کے نام پر ووٹ لینے کے بعد تحریک انصاف نے اس حوالے سے عملی اقدامات کیونکر نہیں کیے ؟ اب چار سال بعد تحریک انصاف کو صوبہ بنانے کا خواب کیوں آیا ؟اس پر عملاً پیش رفت ہو سکے گی؟جہاں تک نئے صوبوں کے قیام کی ضرورت و اہمیت کا سوال ہے تو یہ آج وقت کی بہترین ضرورت ہے اور سمجھا یہ جا رہا ہے کہ ملک کے اندر گورننس کا خواب تب ہی حقیقت بن سکے گا جب صوبے چھوٹے ہوں گے اور دنیا بھر میں جب بھی کسی ایک صوبہ میں ایک خاص حد سے زائد عوام کے تعداد بڑھتی ہے اور مسائل جنم لیتے ہیں تو ان سے نمٹنے کیلئے نئے صوبے عمل میں آتے ہیں۔

امریکا،چین سمیت متعدد ممالک میں ایسی مثالیں ہیں اور خود بھارت میں بھی نئے صوبوں کے حوالے سے متعدد بار اقدامات ہوئے اور اب بھی بھارتی پنجاب کی انتظامی تقسیم عمل میں آئی ہے ۔ ہر جماعت اپوزیشن میں نئے صوبوں کے قیام کی حامی رہی لیکن اقتدار میں آنے کے بعد توجہ نہ دی ۔حکومت کے مخالفین کا کہنا ہے کہ اب آنے والے بلدیاتی اور عام انتخابات کے پیش نظر وہ پھر اسے ایشو بنا کر عوام میں سرخرو ہونا چاہتے ہیں لیکن اب ایسا ممکن نہیں بن سکے گا ۔جنوبی پنجاب صوبہ کیلئے پہلے پنجاب اسمبلی میں دو تہائی اکثریت سے اور پھر قومی اسمبلی اور سینٹ میں قرارداد منظور ہو گی ۔یہ بالکل مختلف نظر نہیں آتا اور قومی سیاست کے حالات بھی ایسے نہیں کہ ایسے اہم ایشو پر سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے ہو ۔

مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کیونکر چاہیں گے کہ جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام کا کریڈٹ تحریک انصاف کو ملے ویسے بھی مسلم لیگ ن اس حوالے سے آگے بڑھنے کو تیار نہیں ہو گی۔ پیپلز پارٹی کے اپنے تحفظات ہونگے ۔ ہاں صرف ایک صورت میں چھوٹے صوبوں کے قیام میں پیش رفت ممکن ہے ،گورننس کیلئے اہم ایشو کو حوالہ بناتے ہوئے اگر اسٹیبلشمنٹ اپنا کردار ادا کرے تو سیاسی قوتوں کو کسی ایک نکتہ پر لایا جا سکتا ہے ۔مگر فی الحال اس میں بھی پیش رفت کی گنجائش نہیں کیونکہ یہ وقت اہم ہے ۔

اور اب حالات انتخابات کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ ملک میں ایک بے حسی اور بے یقینی کی کیفیت ہے ۔ وفاق جس صورتحال سے دوچار ہے اس میں نئے سماجی معاہدے ،نئے بیانیے اور نئے صوبوں کی اشد ضرورت ہے ۔یاد رہے کہ مسلم لیگ ن قومی اسمبلی میں بہاولپور اور جنوبی پنجاب صوبہ کے حوالہ سے آئینی ترامیم سیکرٹریٹ کو بھجوا چکی ہے ،لیکن اس پر بھی عملی کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ۔عام انتخابات2018میں حکمران جماعت نے وفاقی وزیر خسرو بختیار کی سربراہی میں جنوبی پنجاب کے نام پر بننے والے سیاسی گروپ سے اتحاد کر کے باقاعدہ تحریری معاہدہ کیا کہ پی ٹی آئی کو ممکنہ اقتدار ملنے پر پہلے سو روز میں جنوبی پنجاب صوبہ کیلئے عملاً پیش رفت کرنا ہو گی لیکن حکومت بننے کے بعد حکومتی اتحادی ق لیگ کے طارق بشیر چیمہ نے پریس کانفرنس کے ذریعے بہاولپور صوبہ بحالی کا مطالبہ کر دیا ۔

جنوبی پنجاب اور سرائیکی صوبہ کے نعروں کی تاریخ جاننے والوں کاکہنا ہے کہ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے سیاستدان سب علیحدہ صوبہ کی بات صرف اپنے سیاسی مفادات کیلئے کرتے ہیں مگر عملاً اپنی سیاسی جماعتوں کی قیادت کے فیصلوں کو اپنے حلقہ کے عوام کے فیصلہ پر ترجیح دیتے ہیں ۔اسی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ اب بھی شاہ محمود قریشی کی جانب سے لکھے جانے والے مکتوب اور مدد کی درخواست کا مقصد دراصل جنوبی پنجاب صوبہ سے اپنی کمٹمنٹ کا اظہار ہے مگر عملاً انہیں بھی معلوم ہے کہ اس وقت پیش رفت ممکن نہیں اور آنے والے بلدیاتی انتخابات سے قبل جنوبی پنجاب صوبہ کی بات اور دعویٰ کو محض سیاسی قرار دیا جا سکتا ہے جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ نئے صوبوں کے قیام کا آسان راستہ انتظامی بنیاد پر ان کی تقسیم ہے ۔

اگر بھارتی پنجاب جو آبادی اور اراضی کے لحاظ سے پاکستانی پنجاب سے چھوٹا ہے انتظامی بنیاد پر وہاں تقسیم عمل میں لائے جا سکتی ہے تو یہاں کیوں نہیں ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں