مہنگائی کو چیلنج قرار دینا زمینی حقائق کے عین مطابق

مہنگائی کو چیلنج قرار دینا زمینی حقائق کے عین مطابق

(تجزیہ: سلمان غنی) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے ایوان میں خطاب کے دوران مہنگائی کو اپنی حکومت کیلئے چیلنج قرار دینے کے عمل کو بہت حد تک حقیقت پسندانہ اور زمینی حقائق کے عین مطابق قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ مہنگائی کے رجحان نے ایک طوفان کی شکل اختیار کر رکھی ہے اور اس کی بڑی وجہ حکومتی پالیسیوں کے ساتھ اشیائے ضروریات کی خرید و فروخت کے حوالہ سے مانیٹرنگ سسٹم نہ ہونا ہے بظاہر مہنگائی فیڈرل حکومت کا مسئلہ نہیں اس کا تعلق صوبائی حکومتوں سے ہے۔

صوبائی حکومتوں کے احکامات پر ہی ضلعی مشینری نے ضروری اقدامات بروئے کار لانا ہوتے ہیں لہٰذا مہنگائی پر کنٹرول براہ راست گورننس کا ایشو ہے لیکن بدقسمتی سے موجودہ حکومت کے قیام کے بعد سے آج تک گورننس کا خواب حقیقت بنتا نظر نہیں آ رہا ۔ جب کسی چیز کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنا شروع کرتی ہیں اور ملک بھر میں آہ و بقا شروع ہو جاتی ہے کھاد کے حوالے سے بھی یہی ہوا کہ کھاد موجود تھی گودام بھرے ہوئے تھے اور مافیاز نے کھاد کی بلیک مارکیٹنگ کر کے خود حکومت کو پریشانی سے دوچار کیا ۔اس سے قبل حکو مت ملک میں آٹا ’ چینی خوردنی تیل اور ادویات کے حوالے سے اشیائے ضروریہ کی موجودگی اور کنٹرول ریٹ پر اس کی فراہمی کے دعوے کرتی رہی لیکن عملاً مافیا پہلے اشیائے ضروریہ کی قلت پیدا کرتا رہا پھر اس کی فراہمی کے ذر یعے دونوں ہاتھوں سے عوام کو لوٹتا رہا اور آج اگر دیکھا جائے تو حکومت کی سب سے بڑی اپوزیشن مہنگائی ہے تو عوام کی حکومت کے خلاف بڑی چارج شیٹ بھی مہنگائی کی ہے اور زمینی حقائق یہ ہیں کہ مارکیٹ فورسز اس میں مرضی کرتے ہوئے اشیائے ضرور یہ خصوصاً اشیا ئے خور دو نوش کی فروخت میں مسائل زدہ ،مہنگائی زدہ عوام کو لوٹتی نظر آتی ہیں اور کوئی ان پر ہاتھ ڈالنے والا نہیں کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں ۔

کون لو گ ایسا کرتے ہیں یہ حکومتی اداروں خصوصاً انتظامی مشینری کو خوب معلوم ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے عوام کو منافع خوروں ’ ذخیرہ اندوزوں اور مافیاز کے رحم و کرم پر چھوڑ اجا رہا ہے ۔اس کی ایک بڑی وجہ حکومت کی اپنی ترجیحات بھی ہیں ،حکومت امن و امان ، بنیادی ذمہ داریوں کی ادائیگی اور اپنی کارکردگی کو بھی بہتر بنانے کے لیے اقدامات کرتی نظر آتی تو یقینا ً صورتحال بہتر ہوتی لیکن حکومت کا بڑا مسئلہ شروع سے کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف آپریشن اور اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کا رہا ہے لیکن اب چوتھے سال میں خود وزیر اعظم عمران خان یہ اعتراف کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف احتساب میں کامیاب نہیں رہے اور ان کی جانب سے میں این آر او نہیں دوں گا اور کرپٹ عناصر کو ان کے انجام تک پہنچاؤں گا کی گردان کا الٹا نقصان یہ ہوا کہ مہنگائی اور بیروزگاری اور غربت کی آگ میں جلتے افراد ریلیف نہ ہونے کی وجہ سے ماضی کے حکمرانوں کو یاد کرتے نظر آرہے ہیں ۔

دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان تین برس میں اپنی حکومت میں شرح نمو 5.37 ہونے پر مبارکباد کا پیغام دیتے نظر آ رہے ہیں اس دور میں شرح نمو منفی میں جانے کے بعد یکا یک یہ شرح یہاں تک کیسے اور کیونکر پہنچی قطع نظر اس کے دیکھنا یہ ہے کہ اگر یہ درست ہے تو پھر ڈالر ،اشیائے ضرور یہ کی قیمتیں نیچے کیونکر نہیں آرہی ہیں ۔ بے روزگاری اور غربت میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے بجلی گیس اور پٹرولیم کی قیمتوں میں آگ کیوں لگی ہوئی ہے ۔ ہر روز وزیراعظم شرح نمو 5.37 فیصد ہونے پر اپنی حکومت کو مبارکباد دیتے نظر آتے ہیں اسی روز بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کر دیتے ہیں ۔لہٰذا حکومتی اعدادوشمار اپنی جگہ درست ہوں گے لیکن جب تک ان پالیسیوں کے اثرات اور ثمرات عوام تک نہیں پہنچیں گے صورتحال بہتر قرار نہیں دی جا سکتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں