ازخود نوٹس پر قانون پارلیمنٹ کو واپس بھیجنے کی تجویز مسترد،حکومت کو ہم سے مشاورت کرنی چاہیے:چیف جسٹس
اسلام آباد(سپیشل رپورٹر)سپریم کورٹ نے ازخود نو ٹس پر قانون پارلیمنٹ کو واپس بھیجنے کی تجویز مسترد کردی، چیف جسٹس پاکستان نے کہا حکومت کو ہم سے مشاورت کرنی چاہیے اور سماعت ایک ہفتے کیلئے ملتوی کردی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں آٹھ رکنی لارجر بینچ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف کیس کی سماعت کی ، چیف جسٹس نے کہا اٹارنی جنرل صاحب آپ نے کچھ کہنا تھا؟کیا کہنا چاہتے ہیں، اٹارنی جنرل نے کہا یہ قانون کئی اور امور کو بھی ڈیل کرتا ہے ، ہمارے دو قوانین ہیں، ایک سپریم کورٹ ریویو آف آرڈراینڈ ججمنٹ ایکٹ ہے ،دوسرا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ ہے ،دونوں قوانین میں ریویو اور وکیل کرنے کی شقوں کی آپس میں مماثلت ہے ، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ زیادہ وسیع ہے ،سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں سپریم کورٹ کے اندرونی معاملات سے متعلق شقیں ہیں،دونوں قوانین میں سے کس پر انحصار کرنا ہے اس کیلئے ایک حل پر پہنچنا ضروری ہے ، باہمی تضاد سے بچانے کیلئے دونوں قوانین کادوبارہ جائزہ لیا جائے گا، سپریم کورٹ کے انتظامی معاملے پر قانون سازی عدلیہ کے مشورے سے نہیں ہوئی، چیف جسٹس نے کہا خوشی ہے کہ پارلیمنٹ اور حکومت مماثلت والے قوانین میں ترمیم کر رہی ہیں، حکومت کوعدلیہ کی قانون سازی سے متعلق سپریم کورٹ سے مشاورت کرنی چاہیے ، عدلیہ کے حوالے سے یک طرفہ قانون سازی نہیں ہونی چاہئے ، پارلیمنٹ کو قانون سازی کے حوالے سے ہدایات نہیں دے سکتے ، ایک طریقہ یہ ہے کہ حکومت غلطیاں درست کرے اور کیس چلتا رہے۔
یا پھر قانون بنتے رہیں اور ہم سماعت کرتے رہیں، دیکھتے ہیں کون تیز ہے ؟ آپ ہم سے نہ کہیں کہ ہم پارلیمنٹ کو کہیں، سپریم کورٹ کے انتظامی امور سے متعلق ہم سے مشورہ کریں، نظر ثانی سے قانون میں ہم آہنگی آئے گی، ان معاملات پر مشاورت ہو گی تو تنازع ہی نہیں ہوگا۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ آپ حکومت سے ہدایات لے لیں تب تک آپ چاہتے ہیں توفل کورٹ والے نکتے پر دلائل سن لیتے ہیں، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا دیکھنا ہوگا کہ اگر قوانین ایک جیسے ہیں تو اس کو حل کیا جاسکتا ہے یا نہیں،اگر قوانین آپس میں مماثلت رکھتے ہیں تو فل کورٹ سے متعلق درخواستیں سننا وقت کا ضیاع ہوگا،اٹارنی جنرل نے کہاعدالت اس معاملے کو پارلیمنٹ کو بھیج سکتی ہے ،چیف جسٹس نے کہا پارلیمنٹ کو یہ معاملہ نہیں بھیجیں گے ، پارلیمنٹ اور حکومت اگر کوئی تجویز دیں تو اس پر غور کریں گے ، ریویو آف آرڈر کا سیکشن4 سیکشن 6 سے مماثلت رکھتا ہے ، دونوں قوانین میں ریویو کا طریقہ کار بھی مماثلت رکھتا ہے ، مجھے یقین ہے کہ اٹارنی جنرل اور مسلم لیگ ن کے وکیل اس طرح کے تنازع کے دوران دلائل دینا نہیں چاہیں گے ، پارلیمنٹ کو معاملہ بھیجنے سے لگے گا اس پر فیصلہ کردیا ہے ، متضاد قانون سازی پر قوانین لے کر آئیں۔چیف جسٹس نے \'گڈ ٹو سی یو\' کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تمام وکلا یہیں موجود ہیں لیکن ان کو دیکھ کر اپنا جملہ نہیں دہرائوں گا، ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ دونوں قوانین پر سوچیں اور ہم بھی مشاورت کریں گے ، ورنہ دوسری صورت میں پارلیمنٹ اپنی کارروائی کرے ہم اپنی کرتے ہیں دیکھیں گے کون زیادہ تیز ہے ۔
اس موقع پر وکیل امتیاز صدیقی ایڈووکیٹ روسٹرم پر آگئے اور کہا عدالت نے پارلیمنٹ کی کارروائی طلب کی تھی، چیف جسٹس نے کہا اخبارات کے مطابق پارلیمنٹ نے کارروائی عدالت کو فراہم کرنے سے انکارکیا،لیکن ہم نے پارلیمنٹ کی کارروائی ان کی ویب سائٹ سے لے لی ہے ، پارلیمنٹ کو شاید معلوم نہیں تھا کہ خوش قسمتی سے تمام کارروائی ویب سائٹ پر موجود ہے ،چیف جسٹس نے سماعت کے حوالے سے کہا کہ اگر قانون پر نظرثانی کر رہے ہیں تو یہ ایک اکیڈیمک مشق ہو گی، ہم اس تنازع کا پہلا سکوپ طے کر لیتے ہیں، سکوپ طے کرنے سے سماعت کا طریقہ کار بھی فوکس ہوجائے گا،اگلے ہفتے اس کیس کو سنیں گے ، تمام وکلا جو کراچی سے لمبا سفر کر کے آئے ان سے معذرت کرتے ہیں، اٹارنی جنرل نے کہا یہاں موسم خوشگوار ہے امید ہے سب انجوائے کریں گے ، عدالت نے سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دی، مسلم لیگ(ق)نے بھی سپریم کورٹ میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر اپنا جواب جمع کرادیا ہے ،جس میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف دائر درخواستیں خارج کرنے کی استدعا کی گئی ہے ، جواب میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ایکٹ سے عدلیہ کی آزادی میں کمی نہیں اضافہ ہوگا، ملک میں چلنے والی وکلا تحریک کے بعد ریفارمز کے موقع کو گنوا دیا گیا۔ ایکٹ کا سیکشن 4سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کو وسیع کرتا ہے ، ایکٹ کا سیکشن 3عدلیہ کے 184(3)کے اختیار کے استعمال کو کم نہیں کرتا، سیکشن 3چیف جسٹس کے ازخود نوٹس کے اختیار کے بے ترتیب استعمال کو سینئر ججز کے ساتھ مل کر استعمال کا کہتا ہے ، کمیٹی کی جانب سے مقدمات کو مقرر کرنا اور از خود نوٹس کے اختیارات کے استعمال سے عوام کا اعتماد بڑھے گا، سابق چیف جسٹس افتخار چودھری ،گلزار احمد، ثاقب نثار کی جانب سے اختیارات کا متحرک استعمال کیا گیا، چیف جسٹس کے اختیارات کے استعمال کے نتائج سٹیل مل ،پی کے ایل آئی اور نسلہ ٹاور کی صورت میں سامنے آئے ، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ جیسی قانون سازی سے ایسے نتائج سے بچا جا سکتا تھا، آزاد عدلیہ کا مطلب ہر جج کی بغیر پابندی،دبائو اور مداخلت کے فرائض کی انجام دہی ہے ۔