سپریم کورٹ کے فیصلوں پر ہر صورت عمل کرنا ہوگا:بطور اپیکس کورٹ آئینی تشریح،انصاف کی فراہمی اور آئین پر عمل درآمد کا اختیار حاصل،فیصلے محض سفارشات یا ایڈ وائزری نہیں ہوتے جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 3رکنی بینچ کا حکمنامہ جاری
اسلام آباد(کورٹ رپورٹر )سپریم کورٹ میں نیشنل بینک کے گیارہ ہزار پنشنرز کو پنشن کی عدم ادائیگی کے کیس کاجسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے عدالتی کاروائی کا تحریری حکم نامہ جاری کر دیا۔
جسٹس منصور علی شاہ ،جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس ملک شہزاد احمد پر مشتمل تین رکنی بینچ کے تحریری حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ انفرادی شخصیات یا انٹیٹیز کے پاس عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کے علاوہ کو چارہ نہیں،صدر نیشنل بینک عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کیلئے ایک سینئر افسر کو فوکل پرسن مقرر کریں،فوکل پرسن پنشنرز کو مکمل ادائیگی یقینی بنا کر عمل درآمد رپورٹ پیش کریں،جمہوریت میں قانون کی حاکمیت صرف ایک اصول نہیں بلکہ وہ بنیاد ہے جس پر حکمرانی کی قانونی حیثیت ٹکی ہوتی ہے ،سپریم کورٹ کو بطور اپیکس کورٹ کے آئینی تشریح ، انصاف کی فراہمی اور آئین پر عمل درآمد کا اختیار حاصل ہے ،سپریم کورٹ کے فیصلے محض سفارشات یا ایڈوائزری نہیں ہوتے ،سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد ہر صورت یقینی بنانا ہو گا،سپریم کورٹ کے فیصلوں کو نظر انداز یا عمل درآمد میں تاخیر کرنا آئینی ڈھانچے کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے ،عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کرنا کرٹسی نہیں بلکہ آئین کی منشا ہے ،عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد عدالتی نظام پر عوامی اعتماد برقرار رکھنے کے مترادف ہے ۔
اسلام آباد(نمائندہ دنیا )چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا جرنیلوں ،بیوروکریٹس نے ملک کا نظام سنبھال لیا ،اٹارنی جنرل آپ کو علم ہی نہیں کہ چیزیں کیسے ہو رہی ہیں،یہ ملک عوام کیلئے بنا ہے صاحبوں کیلئے نہیں، ہم ریسٹورنٹ ہٹانے نکلے تھے یہاں تو ہاؤسنگ سوسائٹیاں نکل آئیں،کیا وزیراعظم کل کسی کو گولی مارنے کا حکم دے تو گولی مار دیں گے ؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے مارگلہ نیشنل پارک میں کمرشل سرگرمیوں سے متعلق کیس کی سماعت کے موقع پر چیئرپرسن وائلڈ لائف بورڈ رعنا سعید کی برطرفی روک دی جبکہ وائلڈ لائف بورڈ کو وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے کے نوٹیفکیشن پر بھی عملدرآمد روک دیا ۔اٹارنی جنرل نے وائلڈ لائف بورڈ وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے کے عمل کو روکنے کی یقین دہانی کروائی اور کہا چیئرپرسن وائلڈ لائف بورڈ کو عہدے سے ہٹانے کا نوٹیفکیشن بھی واپس لیں گے ،اٹارنی جنرل نے کہامنگل کو کابینہ کا اجلاس ہوگا اس میں معاملہ وزیر اعظم کے علم میں لائوں گا۔عدالت نے ہائوسنگ پراجیکٹ سے متعلق تفصیلات بھی طلب کر لیں،دوران سماعت سیکرٹری کابینہ کی جانب سے وزیراعظم کو صاحب کہنے پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یا پرائم منسٹر کہیں یا شہباز شریف صاحب کہیں،انگریزی میں پرائم منسٹر صاحب کوئی لفظ نہیں ہے ،غلامی کی زنجیریں توڑ دیں، وزیراعظم صاحب نہیں ہوتا،شہباز شریف صاحب کہیں تو سمجھ آتی ہے ۔ سیکرٹری کابینہ کامران افضل نے کہا نیشنل پارک وزارت داخلہ کو دینے کی سمری میں نے نہیں بھیجی تھی،وزیراعظم نے خود حکم جاری کیا تھا جو مجھ تک پہنچا،چیف جسٹس نے کہا آپ نے وزیراعظم کو کہا نہیں کہ یہ رولز کی خلاف ورزی ہے ؟سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی نے کہا جوڈیشل ریویو کا اختیار عدالتوں کو حاصل ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں کہوں گا۔
چیف جسٹس نے کہا وزارتِ داخلہ کو محکمہ جنگلی حیات کیوں دیا گیا،یہاں ایک سماعت میں میجر جنرل آئے تھے جو خود ہی چلے گئے تھے ،اس میجر جنرل کا نام بتائیں جو عدالت سے چلے گئے تھے ،یہ میجر جنرل پہلے تو عدالت کو فائلیں ہی نہیں دکھا رہے تھے ، وہ ہم سے فائلیں چھپا رہے تھے ،یہ ملک ہے اس کا تماشہ بنا دیا گیا ہے ،نیشنل پارک محکمہ جنگلی حیات سے لے کر وزارت داخلہ کو دینا کیا اچھی طرز حکمرانی ہے ،ہم عوامی ووٹوں سے منتخب ہونے والے نمائندوں کا احترام کرتے ہیں،عوامی ووٹوں سے منتخب لوگ ووٹ لے کر آتے ہیں اور پھر انہیں پرچڑھائی کر دی جاتی ہے ،پارلیمنٹ کے باہر سے لے کر میرے گھر تک ہاؤسنگ پراجیکٹ کے بینر لگے ہوئے ہیں،بینرز پر منصوبے کے حوالے سے سی ڈی اے سپانسرڈ لکھا ہوا ہے ،چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا بیوروکریٹس اور جرنیلوں نے ٹیک اوور کر رکھا ہے ،آپ کو علم ہی نہیں ہے چیزیں کیسے چل رہی ہیں،یہ بیوروکریٹس عوام کی نہیں کسی اور کی خدمت کر رہے ہیں،یہ ملک عوام کے لیے بنا ہے صاحبوں کے لیے نہیں بنایا تھا، توہین عدالت کی درخواست نہ آتی تو سب کچھ خاموشی سے ہو جاتا،ملک ایسے نہیں چلے گا،ہم ریسٹورنٹ ہٹانے نکلے تھے یہاں تو ہاؤسنگ سوسائٹیاں نکل آئی ہیں،کیا وزیراعظم کل کسی کو گولی مارنے کا حکم دے تو گولی مار دیں گے ؟ محکمہ وائلڈ لائف کو موسمیاتی تبدیلی کی وزارت سے لے کر جنگلات یا کسی دوسری متعلقہ وزارت کے حوالے کرتے تو بات سمجھ بھی آتی،اٹارنی جنرل آفس لا اینڈ جسٹس کمیشن سے منسلک ہے اگر اسے وزارت صحت سے منسلک کر دیں تو کیا یہ درست منطق ہوگی؟میں ذاتی طور پر توہین عدالت کی کارروائی کے حق میں نہیں ہوں۔اٹارنی جنرل نے کہا میں کابینہ کے فیصلے کے بعد آپ کو چیمبر میں تفصیلات سے آگاہ کر دونگا۔چیف جسٹس نے کہا ہم چیمبر میں کچھ نہیں کرتے ،میری عدالت میں جو بھی ہوتا ہے کھلی عدالت میں ہوتا ہے ،آپ ہمیں کھلی عدالت میں ہی تمام تفصیلات پیش کریں گے ،ہم نہ چیمبر میں تفصیلات لیں گے اور نہ ہی بات سنیں گے ،وزارت داخلہ اگر اتنی ہی اچھی ہے تو صحت، تعلیم اور قانون سمیت ساری وزارتیں انہیں دے دیں۔ بعد ازاں عدالت نے سماعت 15 اگست تک ملتوی کردی۔