آئی ایم ایف کا پروگرام مشکل حالات میں تازہ ہوا کاجھونکا

آئی ایم ایف کا پروگرام مشکل حالات میں تازہ ہوا کاجھونکا

(تجزیہ: سلمان غنی) آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کیلئے 7ارب ڈالرز کے پیکیج کو پریشان کن معاشی حالات میں تازہ ہوا کا جھونکا قرار دیا جاسکتا ہے ۔ مشکل بنیادوں پر ‘‘موسم بہار’’ کا انعقاد ، ہماری حکومتی اصلاحات اور معاشی محاذ پر مشکل اور مو ثر اقدامات پر ہے ۔

ایک مربوط پروگرام سے ہی ہم معاشی گرداب سے نکل سکتے ہیں اور آگے بڑھ سکتے ہیں بلکہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکتے ہیں ۔ یہ آئی ایم ایف کا پروگرام ہی تھا جس بنا پر بہت سے ممالک خصوصاً سعودی عرب، ابوظہبی نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے اپنے کئے جانے والے وعدوں پر عمل پیرا ہوناتھا ۔ جہاں تک آئی ایم ایف کے پیکیج کے پاکستانی معیشت پر اثرات کا تعلق ہے تو براہ راست اثرات تو خود سٹاک ایکسچینج میں تیزی سے سامنے آتے ہیں اور پاکستان میں سرمایہ کاری کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ۔افراط زر میں کمی کے اثرات خود اشیائے ضروریات ، خصوصاً مہنگائی میں کمی کا باعث بنیں گے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اب خود آئی ایم ایف اور بلوم برگ کی رپورٹس میں کہا جارہا ہے کہ پاکستان کی معیشت استحکام کیجانب گامزن ہے ، یہ سرٹیفکیٹ اندرونی وبیرونی سرمایہ کاری میں معاون بنے گا۔

البتہ جہاں تک آئی ایم ایف کے پروگرام پر عمل درآمد کا تعلق ہے تو وزیر اعظم شہباز شریف سمیت دیگر حکومتی ذمہ داران یہ کہتے نظر آرہے ہیں کہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنی ہیں اور اس مقصد کیلئے ممکنہ اقدامات ہوں گے غالباً ان کا اشارہ منی بجٹ کی طرف ہے اور ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ18سو ارب کے مزید ٹیکس بھی لگ سکتے ہیں لہٰذا حکومت کو مزید ٹیکس اور معاشی استحکام کے حوالہ سے یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ معاشی استحکام سیاسی استحکام کے ساتھ مشروط ہے اور سیاسی استحکام کیلئے قومی اتحاد ناگزیر ہے جو پاکستان کے مستقبل اور مہنگائی ، بے روزگاری سے نجات کا ضامن ہوگا۔ہمارے ملک میں معاشی ترقی کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ معاشی ترقی کے حوالہ سے سنجیدہ کوششوں کا فقدان رہا ہے ۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کی حکومت کی تمام تر توجہ معاشی بہتری پر مرکوز ہے ان کی اسی سرگرمیوں اور اجلاسوں کا سلسلہ معاشی صورتحال سے جڑا نظر آرہا ہے اور وہ ایک طرف جہاں نئے پروگرام کے حصول کیلئے سرگرم تھے تو ساتھ ساتھ وہ یہ بھی کہتے نظر آرہے تھے کہ ہمیں ہر قیمت پر آئی ایم ایف سے جان چھڑانا ہے ۔

اس کی بڑی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ آئی ایم ایف کا پروگرام انتہائی سخت شرائط سے مشروط ہے اور موجودہ حکومت کو نہ چاہتے ہوئے بھی یہ شرائط ماننا پڑی ہیں۔ اس لئے کہ اس پر سیاست کا نہیں ریاست کی بقا کا سوال تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ وزیر اعظم شہبازشریف کی نیت پر ان کے اتحادی اور ریاستی ادارے بھی کھڑے نظر آرہے تھے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے دوست ممالک چین، سعودی عرب اور ابوظہبی کی معاونت بھی ہمیں حاصل تھی۔اب ہم بیرونی امداد کے بغیر چلنے کے قابل نہیں رہے لہٰذا اب گیند خود حکومت کی کورٹ میں ہے اور فیصلہ وزیر اعظم شہباز شریف ان کی جماعت اور رفقائے کار کو کرنا ہے کہ ملک کو پرانے سسٹم پر ہی چلانا ہے یا بڑے فیصلوں کے ذریعہ اسے بیرونی دباؤ سے نکالنا اور اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہے ، اس کیلئے جرأت اور استقامت درکار ہوگی ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں