مدارس بل، حکومت اور فضل الرحمن دونو ں پسپائی کیلئے تیارنہیں
(تجزیہ:سلمان غنی) مدارس بل پرحکومت کی جانب سے مولانا فضل الرحمن کے تحفظات دور کرنے کی واضح یقین دہانی کے باوجود کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی ،البتہ مولانا فضل الرحمن کے لہجے کی سختی بتا رہی ہے۔
کہ وہ یقین دہانیوں پر مطمئن نہیں اور ان کا کہنا ہے کہ26ویں آئینی ترمیم پر دستخط ہوئے تو مدارس بل پر کیوں نہیں، انہوں نے اس حوالہ سے ایوان صدر کو ٹارگٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیا صدر مملکت ایک ایکٹ پر دوبار اعتراض بھیج سکتے ہیں ۔سینیٹ سے بل پردستخط کرنے کے بعد ایوان صدر جاتا ہے تو دس دن بعد وہ ازخود ایکٹ بن جاتا ہے ،ان کا کہنا ہے کہ بل کو بنانے والے ہی اسے متنازعہ بنا کر اکسا رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کسی بڑے احتجاج اور لانگ مارچ کی بجائے بل پر دستخطوں کیلئے سیاسی دباؤ بڑھاتے نظر آرہے ہیں اور بڑا اور بنیادی سوال یہی ہے کہ جب صدر آصف زرداری ،وزیر اعظم شہبازشریف اور بلاول بھٹو کی موجودگی میں بل پر بات ہوئی اور پھر وزارت قانون نے ڈرافٹ تیار کیا۔
تو اب ایوان صدر کی اس پر اعتراض کی گنجائش کیوں ہے اور اگر کسی کے بل پر تحفظات ہیں تو وہ دور کیوں نہیں ہوپائے ۔یہ مسئلہ کب حل ہوگا اور فضل الرحمن صدر کو ہی رکاوٹ کیوں سمجھتے ہیں۔ مدارس قیام پاکستان کے بعد سے اب تک سول سوسائٹی ایکٹ کے تحت ہی رجسٹرڈ ہوتے چلے آئے ہیں اور 75سال سے ایسا چل رہا تھا تو اب انہیں وزارت تعلیم کے تابع کرنے کی کیا ضرورت ہے اور2019میں جب مدارس کے ساتھ وزارت کی رجسٹریشن کا معاہدہ ہوا تو پھر رجسٹریشن کا عمل کیوں شروع نہ ہوسکا،حکومت اس وقت مدارس کو وزارت داخلہ کے تحت کرنا چاہتی تھی مگر اب تک مدارس کی رجسٹریشن سول سوسائٹی ایکٹ کے تحت ہی ہورہی ہے ،جہاں تک وزارت تعلیم کے تابع ہونے پر تحفظات کا تعلق ہے تو تاثر یہ ہے کہ اگر مدارس حکومت کے تابع ہوں گے توآزادی سلب ہوگی، سکول وکالجز کی طرح سرکاری نصاب اپنانا ہوگا ،مدارس کی رجسٹریشن کی اینول رینول اور آڈٹ کیلئے حکومت کو جوابدہ ہونا ہوگا۔
اہم بات یہ ہے کہ وزارت تعلیم کے تابع ہونے کے بعد مدرسے کسی قسم کی فنڈنگ اور ذرائع آمدن پیدا کرنے کے مجازنہیں ہونگے جبکہ سول سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹریشن کے عمل کے بعد مدرسے سرکار کے تابع نہیں ہوں گے ۔پاکستان میں سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ بڑے تعلیمی ادارے سندھ مدرستہ السلام، سنی سکول، غزالی ٹرسٹ ، علامہ اقبال اوپن یونیورسی، الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان ایجوکیشن سوسائٹی اپنے نصاب پر تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھ سکتے ہیں تو وفاق المدارس کے تعلیمی اداروں کو کیا خوف ہے ۔اب جہاں ان دیکھی قوتیں اس بل کو ایکٹ میں تبدیل کرنے کے خلاف ہیں تو فضل الرحمن اور ان کی جماعت نے بھی مذکورہ بل کو اپنی ناک کا مسئلہ بنا رکھا ہے اور وہ اس پر پسپائی کے لئے تیار نہیں ۔ایوان صدر اور بعض غیر سیاسی حلقوں کی جانب سے آنے والے تحفظات کے بعد اس بل کا راستہ روکا جارہا ہے ،کیا یہ روکا جاسکے گا، اس حوالہ سے عام تاثر یہی ہے کہ اس پر پیش رفت کرنا ہوگی ۔اگر حکومت پیشرفت نہیں کرتی تو پھر مولانا فضل الرحمن کے پاس احتجاج کے آپشن کے سوا کچھ نہ ہوگا ۔