لڑکیوں کی تعلیم مذہبی فریضہ ہی نہیں اہم معاشرتی ضرورت ،قراردادوں پر عملدر آمد ہونا چاہیے:عالمی کانفرنس
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر)مسلم کمیونٹیز میں لڑکیوں کی تعلیم کے موضوع پر اسلام آباد میں دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس ‘‘اعلان اسلام آباد’’ کی منظوری کے ساتھ اختتام پذیر ہوگئی۔
دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس میں شریک 40 سے زائد اسلامی ممالک نے اسلامی حکومتوں، نجی اداروں اور بین الاقوامی اداروں پر زور دیا ہے کہ وہ قومی ایجنڈوں میں لڑکیوں کی تعلیم کو ترجیح دیں، غربت، تنازعات اور سماجی چیلنجز سے متا ثرہ لڑکیوں کیلئے تعلیمی مواقع فراہم کرنے کیلئے مفت سکالرشپس دینے کی تجویزبھی دی گئی ، کانفرنس میں اس با ت پر زور د یا گیاکہ لڑکیوں کی تعلیم صرف ایک مذہبی فریضہ ہی نہیں بلکہ ایک اہم معاشرتی ضرورت بھی ہے ،قراردادوں پر عملدرآمد ہونا چاہئے ، پڑھی لکھی عورت دنیا میں امن و سکون ، سماج کو انتہا پسندی، تشدد، جرائم سے بچانے میں معاون ثابت ہوتی ہے ،اسلام کو بد نام کرنے اور خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی کی کوششیں بند ہونی چاہئے ،اب وقت آگیا کہ اسلام کی غلط تشریح اور خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی کو ختم کیا جائے ،تعلیم بنیادی حق ہے ،اسلامی تعلیمات نے اسے لازم قررار د یا ، عالمی معاہدوں نے اسے مضبوط کیا اور قومی آئین نے اس کو استحکام بخشا ، کانفرنس میں انتہا پسندانہ نظریات اور ثقافتی اصولوں سے لڑنے کی اہمیت پر زور دیا گیا جو خواتین کے لئے تعلیمی مواقع میں رکاوٹ ہیں۔
جاری اعلا میہ میں مسلم معاشروں میں لڑکیوں کی تعلیم جیسے بنیادی مسئلے پر اس اقدام کو سراہا گیا، جس میں دنیا بھر کے مذہبی قائدین نے شرکت کی ، اعلامیہ میں اسلامی تعلیمات کے اصولوں کی روشنی میں تعلیمی عمل کو منظم کرنے کی ضرورت پر زور د یا گیا تاکہ شناخت اور اقدار کا تحفظ ہو اور ان تجربا ت سے استفادہ کیا جائے جو قومی اور عالمی سطح پر تعلیم و تربیت کے معیار کو بلند کرنے میں معاون ثابت ہوں ،لڑکیوں کے تعلیمی حق کے تحفظ انکی تربیت کے مواقع کی ضمانت ،اس بات کو یقینی بنانے کیلئے اجتماعی کوششوں کا عزم ظاہر کیا گیا تاکہ تعلیم یافتہ خواتین کا کردار مستحکم خاندانوں کی پرورش اورپرامن معاشروں کی تعمیر میں مثبت اثر ڈالے ، اس سے دنیا میں امن و سکون اور سماج کو انتہا پسندی، تشدد، جرائم سے بچانے میں مدد ملے گی ،سفارشات میں کچھ معاشروں کے ر سم و رواج سے جنم لینے والے انتہا پسندانہ خیالات، فتاویٰ اور نظر یات سے خبردار کیا گیا جو لڑکیوں کی تعلیم میں رکاوٹ بنتے ہیں اور خواتین کو کم تر سمجھتے ہیں ، یہ مذہب کا شرمناک استحصال ہے جس کا مقصد محرومی اور علیحدگی کی پالیسیوں کو جواز فراہم کرنا ہے ،اسلامی ممالک کی حکومتوں کی مدد کے لئے تمام وسائل بروئے کار لانے پر زور د یا گیا۔
تا کہ تعلیم کے وسائل اور مضامین کو بہتر بنا یا جا سکے ، خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم کو قومی ترجیحات میں شامل کرتے ہوئے ان کے تعلیمی حقوق کی ضمانت دی جا سکے اور پائیدارترقی کے اہداف کے لئے کئے گئے بین الاقوامی وعدوں پر عمل درآمد ہو ،غربت، تنازعات اور سماجی چیلنجز سے متا ثرہ لڑکیوں کے لئے تعلیمی مواقع فراہم کرنے کے لئے مفت سکالرشپس دینے کی تجویزدی گئی ،اسلامی فقہی اداروں کے فیصلوں اور علما کے فتاو ی ٰپر توجہ دینے کی سفارش کی گئی، جو خواتین کے مختلف شعبوں میں تعلیم حاصل کرنے کے شرعی حق کو تسلیم کرتے ہیں۔ ان فیصلوں اور فتاویٰ کو عام کرنے اور ان کی آرائکا موثر جواب دینے کی ضرورت پر زور دیا گیا جو خواتین کے اس فطری اور دینی حق کی مخالفت کرتی ہیں ،تعلیمی مواد کو ڈیجیٹل کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی تاکہ تعلیمی ادارے اور بین الاقوامی تنظیمیں ایسا مواد تیار کریں جو لڑکیوں کے لئے تعلیم تک رسائی کو آسان بنائے ، خاص طور پر دور دراز علاقوں میں خصوصی ضرور یات رکھنے والی لڑکیوں کے لئے تعلیمی پروگراموں کو بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا گیا تا کہ ان کے لئے موزوں تعلیمی ماحول فراہم کیا جا سکے اورتربیت یافتہ اساتذہ کی موجودگی یقینی بنائی جا سکے تاکہ انہیں مساوی تعلیمی مواقع اور سماجی شرکت کا حق حاصل ہو، اسلامی ممالک کی قانون ساز تنظیموں کو دعوت دی گئی کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کے لئے قوانین، ضوابط اور قومی نظام وضع کریں۔
مسلم دنیا کے سرکاری اور نجی میڈ یااداروں کو لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت پر شعور اجاگر کرنے کے لئے بیداری مہم اور تعلیمی پروگرام شروع کرنے کی دعوت دی گئی ، ان مہمات میں ماہر ین ِ تعلیم، علما، آئمہ اور رہنمائوں کی شرکت کو یقینی بنایا جائے اور ان مخالف آوازوں کا جواب دیا جائے جو اس حق کی مخالفت کرتی ہیں تا کہ اسلام کی اصل حقیقت کو واضح کیا جا سکے ۔ان مطالعات اور تحقیقی کاموں کی حما یت جو مسلم معاشروں میں لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ دیتے ہیں اور اس کے فروغ کے لئے بہترین طریقے تجویز کرتے ہیں، نیز ان رکاوٹوں کو کم کرنے کی تجاویز پیش کرتے ہیں جو اس راستے میں حائل ہیں ،رابطہ عالمِِ اسلامی کے سیکر ٹر ی جنرل اور چیئرمین مسلم علمائکونسل شیخ ڈاکٹر محمد بن عبد الکریم العیسیٰ کی طرف سے پیش کی گئی اس بین الاقوامی شراکت داری کے وسیع پلیٹ فارم کے اقدام کی تعریف کی گئی ،وہ تمام افرادیاادارے جو ان اسلامی اور دینی اصولوں کی مخالفت کرتے ہیں یا ان پر تحفظات رکھتے ہیں جیساکہ اس اعلا میہ کے دیباچے میں ذکر کیاگیاہے متفقہ طور پر امت مسلمہ کے دا ئرہ فکر سے خارج ہیں اور ان نظریات سے (خواہ انفرادی،ادارہ جاتی ، عوامی یا نجی ہوں) کانفرنس کے شرکائمذہبی پلیٹ فارمز، بشمول دینی اجتماعات اور اسلامی دنیا اور اقلیتی ممالک میں جمعہ کے خطبات کے لئے واضح اور فیصلہ کن پیغام دیتے ہیں ، اسلام کو بدنام کرنے اور خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی کی کوششیں بند ہونی چاہئے ۔
اس اقدام کے محرک ، سیکرٹری جنرل رابطہ عالم اسلامی اور چیئرمین مسلم علمائکو نسل شیخ ڈاکٹر محمد بن عبد الکریم العیسی ٰکو کانفرنس کی تمام قراردادوں کو آگے بڑھانے اور عمل در آمد اور مادی اور اخلاقی طور پر ان کی حمایت کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے ،اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے سیکرٹری جنرل کے ذریعے اسلامی حکومتوں کے دونوں اداروں کے درمیان طے شدہ معاہدے کے تحت اور مسلم ممالک (اور مسلم اقلیتوں والے ممالک) میں سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں تک کانفرنس کے شرکائنے وزیر اعظم کا کانفرنس کی میزبانی اور حمایت پر شکریہ ادا کیا ۔ قبل ازیں کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے کہا کہ طالبان خواتین کو انسان نہیں سمجھتے ، تعلیم ہر لڑکی کا بنیادی حق ہے ،طالبان کی پالیسیاں اسلامی تعلیمات کی عکا س نہیں ، طالبان اپنے جرائم کو ثقافت اورمذہبی جواز کے طور پر پیش کرتے ہیں ،ہمیں یہ بات بالکل واضح کرنی چا ہئے کہ اس میں کچھ بھی اسلامی نہیں، یہ پالیسیاں اسلامی تعلیمات کی عکاسی نہیں کرتیں ، انکی پالیسیاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہیں ،طالبان نے ایک دہائی سے خواتین کو تعلیم سے محروم کر رکھا ہے۔
اگر ہم افغان لڑکیوں کی بات نہ کریں تو کانفرنس کا مقصد پورا نہیں ہوگا ۔طالبان نے خواتین کے حقوق چھیننے کیلئے 100 سے زائد قانون سازیاں کی ہیں۔ میں نے پاکستان سے اپنا سفرشروع کیا اورمیرا دل ہمیشہ پاکستان میں رہتا ہے ، دنیا میں120 ملین لڑکیاں سکول نہیں جا سکتیں جبکہ پاکستان میں ساڑھے 12 ملین لڑکیاں سکول نہیں جاتیں ،مسلم ورلڈ لیگ کا شکریہ جنہوں نے ہمیں یہاں اکٹھا کیا، غزہ میں اسرائیل نے پورا تعلیمی نظام تباہ کر دیا ، 90 فیصد یونیورسٹیاں تباہ ہوچکی ہیں، ملالہ کا کہنا تھا دنیا کے رنگوں میں پاکستانی لڑکیوں کا حصہ بھی درکارہے ، ہرلڑکی کا حق ہے کہ وہ 12 سال کیلئے سکول جائے ، خواتین کی تعلیم میرے دل کے بہت قریب ہے ، انہوں نے کہا کہ حضرت عائشہ اور فاطمہ جناح جیسی خواتین ہمارے لئے مشعل راہ ہیں،فاطمہ جناح نے آزادی اور انصاف کی جدوجہد کیلئے بہت کام کیا۔ملالہ یوسفزئی کا کہنا تھا معیشت کی بہتری کیلئے خواتین کا کردار اتنا ہی اہم ہے جتنا مردوں کا ۔چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم استحقاق نہیں بلکہ بنیادی حق ہے ،مسلم اور عالمی برادری تعلیم کے ذریعے لڑکیوں کو بااختیار بنانے کے لئے اپنے عزم کی تجدید کریں ،مسلم اور عالمی برادری تعلیم کے ذریعے لڑکیوں کو بااختیار بنانے کے لئے اپنے عزم کی تجدید کریں ،کانفرنس کو انتہائی اہم قرار د یتے ہوئے انہوں کہا کہ کسی بھی معاشرے کا مستقبل اس کے نوجوانوں بالخصوص لڑکیوں کی تعلیم میں مضمر ہے۔
پڑھی لکھی خواتین پائیدار اور خوشحال معاشرے کی بنیاد ہے ،ملالہ لڑکیوں کیلئے رول ماڈل ہیں ، اسلام آباد اعلامیہ کا مقصد ایک باہمی تعاون پر مبنی فریم ورک کے تحت لڑکیوں کی تعلیم میں اہم چیلنجوں سے نمٹنا ہے ،پاکستان نہ صرف ایک پالیسی بلکہ ایک ترجیح کے طور پر بچیوں کی تعلیم کیلئے پرعزم ہے ،ہم اس وقت تک نہیں رکیں گے جب تک پاکستان کی ہر بچی کو سیکھنے کا موقع نہیں مل جاتا ،بطور وزیر اعظم مجھے ملالہ یوسفزئی کو ان کی بہادری کے اعتراف میں 2011 میں نیشنل یوتھ پیس پرائز سے نوازنے کا اعزاز حاصل ہوا ، اس موقع پر سیکر ٹر ی جنرل مسلم ورلڈ لیگ نے ملالہ یوسفزئی کو اعزازی شیلڈ بھی دی ، کانفرنس کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ہمیں لڑکیوں کی تعلیم میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کیلئے مل کر کام کرنا ہے ، ہماری حکومت لڑکیوں کی معیاری تعلیم تک رسائی کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کر رہی ہے ، ایک پڑھی لکھی خاتون بہتر انداز میں اپنے خاندان کی پرورش کرسکتی ہے ۔