سیاسی قیادت ہوش کے ناخن لے تو مسائل حل ہو سکتے :فضل الرحمن
پشاور ( نیوز ایجنسیاں ، مانیٹرنگ ڈیسک) جمعیت علمائے اسلام ( جے یو آئی ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے اگر سیاسی قیادت ہوش کے ناخن لے اور مخالفت کے باوجود اعتدال کا راستہ اختیار کرے تو ملک کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
قیام پاکستان سے اب تک اسٹیبلشمنٹ اور مغربی قوتیں دینی مدارس کے خلاف سرگرم ہیں جب کہ کرم میں فوجی آپریشن کے لیے راہ ہموار کی جا رہی ہے ۔مردان میں جامعتہ الاسلامیہ بابوزئی میں تکمیل درس نظامی کے سلسلے میں پروقار تقریب ہوئی، تقریب میں دینی مدارس کے ہزاروں طلبا اور ان کے والدین نے شرکت کی۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الر حمن نے کہا کہ نئی ٹیکنالوجی کے خلاف نہیں لیکن انسانیت کے فائدے کی بات کریں گے ، مغربی کلچر مذہبی جماعتوں کے پیچھے لگا ہوا ہے ۔ان کا کہنا تھا ، پرویز مشرف کو کہا کہ آپ بھی تسلیم کریں کہ ہم امریکا کے غلام ہیں، ہمارے اسلاف نے جدوجہد کی جب کہ اسٹیبلشمنٹ نے اس کی غلامی تسلیم کی۔سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ مدارس کی رجسٹریشن کا ایشو اٹھایا گیا، ہم جدید علوم کے خلاف نہیں، تقسیم حکومت نے پیدا کی ہے ۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ مدارس کی حفاظت کرینگے ،ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعت ہو نے کے ناطے ہم مذاکرات کے حق میں ہیں، مذاکرات نیک نیتی کے ساتھ ہونے چاہئیں ۔
سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ صوبے میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں، صوبے میں لوٹ کھسوٹ اور کمیشن مافیا سرگرم ہے ۔ فضل الرحمن نے کہا ہے کہ حکومت، پی ٹی آئی مذاکرات میں بظاہر کوئی پیشرفت نظر نہیں آ رہی۔ آج بھی پی ٹی آئی سمیت ہر سیاسی جماعت سے مسائل کے حل کیلئے بات کرنے کوتیارہیں، یہ جماعت پہلے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی حکومت سے مذاکرات کے سخت خلاف تھی مگر اب اسی حکومت کے دروازے کھٹکھٹا رہی ہے ۔ آپریشن مسائل کا حل نہیں ،جے یو آئی سیاسی مذاکرات پر یقین رکھتی ہے ، اگر اسٹیبلشمنٹ کو اس سلسلے میں ہماری مدد کی ضرورت ہو تو ہم ہمیشہ تعاون کے لیے تیار ہیں۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے ابتدا میں عوام کو گمراہ کیا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے براہ راست بات کرے گی، مگر بعد میں انہیں یہ سمجھ آ گئی کہ حکومت سے بات کیے بغیر کوئی حل نہیں ہے ، فضل الرحمن نے کہا دعا گو ہوں کہ مذاکرات کامیاب ہوں۔انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی بطور پارٹی ایک بات کرتی ہے ، مگر ان کے کچھ ارکان میرے خلاف بیانات دے رہے ہیں، میں پارٹی کے موقف کا جواب دوں گا، لیکن کسی فردِ واحد کی غیر سنجیدہ گفتگو کو اہمیت نہیں دوں گا۔