الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت اور حکومت کے حق میں جھکاؤ ظاہر کیا جسٹس منصور نے تحریری فیصلہ جاری کر دیا

الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت  اور حکومت کے حق میں جھکاؤ ظاہر کیا جسٹس منصور نے تحریری فیصلہ جاری کر دیا

اسلام آباد(کورٹ رپورٹر،مانیٹرنگ ڈیسک)سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے عادل بازئی کو ڈی سیٹ کیے جانے کا الیکشن کمیشن فیصلہ کالعدم قرار دینے کا 18 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا جبکہ جسٹس عائشہ ملک نے اضافی نوٹ تحریر کیا ہے۔

فیصلے میں کہاگیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت اور حکومت کے حق میں جھکاؤ ظاہر کیا، عدالتی ہدایات کے باوجود الیکشن کمیشن ایسا رویہ اپناتا ہے جو اس کے آئینی فرائض سے مطابقت نہیں رکھتا۔ الیکشن کمیشن سمجھتا ہے کہ اسے دوسرے آئینی اداروں اور ووٹ کے بنیادی حق کو نظرانداز کرنے کا اختیار حاصل ہے ۔ انتخابات جمہوریت کی زندگی ہیں اور الیکشن کمیشن انتخابی عمل کی دیانتداری کا ضامن ہے ،الیکشن کمیشن کی آزادی انتخابی عمل کے بغیر جمہوریت کی بنیاد کمزور ہو جاتی ہے ۔ الیکشن کمیشن کو سیاسی اثر و رسوخ یا سیاسی مداخلت کا شکار نہیں ہونا چاہیے ، جمہوریت کا غیرجانبدار محافظ رہنا چاہیے ، الیکشن کمیشن کا حکومت کے حق میں جھکاؤ ظاہر ہو تو یہ سیاسی نظام کی ساکھ کو نقصان پہنچائے گا۔ انتخابی عمل کی حفاظت کا مرکز عوام کے ووٹ کا حق ہے ، ووٹ کے استعمال سے جمہوری نظام میں طاقت اور قانونی حیثیت عوام کی مرضی سے حاصل ہوتی ہے ۔ سپریم کورٹ نے سول کورٹ کو وزیراعظم شہباز شریف کیخلاف بوگس حلف نامہ کے الزام کا کیس جلد نمٹانے کی ہدایت کی ہے ۔ فیصلے میں ہدایت کی گئی ہے کہ وزیراعظم کیخلاف جعلی حلف نامے کا الزام متعلق کیس جلد نمٹائے ،سول کورٹ کا 16 فروری 2024 کے حلف نامے کا فیصلہ حتمی نہیں،حلف نامے کی اصلیت کے الزامات سنگین نوعیت کے ہیں،حلف نامے کی قانونی حیثیت کا فیصلہ سول کورٹ جلد کرے ، سول اور فوجداری مقدمات بھی جلد نمٹائے ۔

جسٹس عائشہ ملک نے اضافی نوٹ میں کہا آئین کے تحت حکومت کا اختیار صرف عوام کی مرضی پر مبنی ہے ، یہ مرضی عوام کے اپنے حقِ رائے دہی کے استعمال، انتخابی و سیاسی عمل میں شرکت کے ذریعے ظاہر ہوتی ہے ۔ انتخابات بنیادی طریقہ ہیں جسکے ذریعے رجسٹرڈ ووٹر اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں۔ اس مقدمے کے حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ الیکشن کمیشن اپنی آئینی ذمہ داری نبھانے میں ناکام رہا۔ 20 فروری 2024 کو حلف نامے کے تحت عادل بازئی نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی، چیئرمین سنی اتحاد کونسل نے 20 فروری کو الیکشن کمیشن کو شمولیت کی اطلاع دی۔ سنی اتحاد کونسل کیس میں فیصلے سے وہ قومی اسمبلی کے آزاد رکن رہے ۔ یہ بھی واضح کیا گیا کہ اس نے 16 فروری 2024 کے حلف نامے کو کبھی جمع نہیں کروایا، عادل بازئی نے حلف نامہ جعلی اور من گھڑت ہونے بارے سول مقدمہ اور فوجداری شکایت درج کروائی۔ مذکورہ حلف نامہ 2 نومبر 2024 کو سینئر سول جج 1 کوئٹہ نے معطل کر دیا۔ فوجداری شکایت میں ایس ایچ او کی رپورٹ پر حلف نامے کو جعلی اور من گھڑت قرار دیا گیا۔ اپیل کنندہ کا پورا کیس اس بات پر مبنی تھا کہ وہ کبھی ن لیگ کا امیدوار یا رکن نہیں رہا۔ انحراف کا معاملہ سامنے آیا تو الیکشن کمیشن نے اپیل کنندہ کے کسی ثبوت کو نہ دیکھا۔ سربراہ ن لیگ کی بات کو الیکشن کمیشن نے بغیر جانچ پڑتال قبول کر لیا۔یہ اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت اور حکومت کے حق میں جھکاؤ ظاہر کیا۔الیکشن کمیشن کو سیاسی اثر و رسوخ یا سیاسی انجینئرنگ کے تابع نہیں ہونا چاہیے ، حکومت کے حق میں الیکشن کمیشن کا جھکاؤ سیاسی نظام کی قانونی حیثیت کو متاثر کرے گا۔ ایک آزاد آئینی ادارے کی ضرورت ہے تاکہ انتخابات کے ذریعے عوام کی مرضی کو عملی جامہ پہنایا جا سکے ، یہ افسوسناک ہے کہ اس عدالت کے واضح احکامات کے باوجود الیکشن کمیشن اپنے آئینی فرائض کے برعکس طرزِ عمل اپناتا ہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں