کازلسٹ منسوخ کرنیکی بجائے میری عدالت کی بنیادوں میں بارود رکھ کر اڑادیتے : جسٹس سردار اعجاز اسحاق

کازلسٹ منسوخ کرنیکی بجائے میری عدالت کی بنیادوں میں بارود رکھ کر اڑادیتے : جسٹس سردار اعجاز اسحاق

اسلام آباد، لاہور(اپنے نامہ نگار سے، کورٹ رپورٹر)اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کی عدالت نے عدالتی احکامات کے باوجود بانی پی ٹی آئی عمران خان سے ملاقات نہ کرانے پر توہین عدالت درخواست میں کازلسٹ منسوخ کرنے پر ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد سے جواب طلب کرلیا اور ریمارکس دیئے کہ کیا چیف جسٹس کے پاس ایک جج کے پاس زیر سماعت کیس اس کی مرضی کے بغیر دوسرے جج کو منتقل کرنے کا اختیار ہے ؟۔۔۔

ججز کا اصل احتساب عوام ہے ،پبلک جب یہ دیکھے گی تو کہے گی کہ طاقت ور لوگوں کے خلاف کیس ہو گا تو جج بے بس ہیں وہ تو چیف جسٹس ہی سنے گا،میں یہ کارروائی اِن تمام سوالات کو طے کرنے کیلئے شروع کرنے جا رہا ہوں۔ عدالت نے وکیل مشال یوسفزئی کی جیل سپرنٹنڈنٹ کے خلاف توہین عدالت کیس کی کازلسٹ منسوخ ہونے پر ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو سیکشن 6باور سیکشن7 کے تحت ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے سماعت میں وقفہ کردیا،جس کے بعد سماعت شروع ہونے پر ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل اسلام آباد ہائیکورٹ سلطان محمود عدالت میں پیش ہوگئے ، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے سٹیٹ کونسل سے استفسار کیاکہ جو کچھ ہوا ہے کیا آپ اس میں ملوث ہیں؟ سٹیٹ کونسل نے کہاکہ ہمارے علم میں نہیں تھا یہ پرائیویٹ وکیل کے ذریعے درخواست دی گئی تھی، جسٹس سردار اعجازاسحاق خان نے کہاکہ کیس منتقلی کیلئے یہ متفرق درخواست کس قانون کے تحت دائر کی گئی؟،کیا ریاست جج کی مرضی کے بغیر کیس لارجر بینچ کو منتقل کرنے کی حمایت کرتی ہے ؟،یہ کرنے کی بجائے آپ میری عدالت کی بنیادوں میں بارود رکھ کر اڑا دیتے ،جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ڈپٹی رجسٹرار سے استفسار کیاکہ آپ نے کس کے کہنے پر کازلسٹ منسوخ کی، جس پر ڈپٹی رجسٹرار نے عدالت کو بتایاکہ ہمیں چیف جسٹس آفس سے ہدایات آئی تھیں، چیف جسٹس آفس سے کہا گیا لارجر بینچ بن گیا ، اب اس کیس کی کازلسٹ منسوخ کردیں، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے توہینِ عدالت کیس کی کازلسٹ منسوخ کرنے پر سوموٹو توہینِ عدالت کی کارروائی شروع کر دی یہ میری ذات کا یا میرے اختیارات کا مسئلہ نہیں بلکہ ہائیکورٹ کی توقیر کا ہے ،کیا اس طرح عوام کا نظام انصاف پر یقین رہے گا،شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے کہاکہ اس کیس میں ریاست اور سپرنٹنڈ نٹ تو متاثرہ فریق بھی نہیں تھے ،ہمیں کیا انصاف ملے گا،مشال یوسفزئی نے کہاکہ ہمارے ساتھ باہر یہ ہورہا ہے تو بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کیساتھ جیل میں کیا کرتے ہونگے ، جسٹس اعجازاسحاق خان نے کہاکہ آپ وہ بات کررہی ہیں ہمیں تو اپنے ادارے کی فکر ہوگئی ، گائیڈڈ میزائل آپ کی طرف جارہا تھا وہ اب ہماری طرف آرہا ہے ،اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل کو تحریری جواب جمع کرانے کا حکم دیدیا، عدالت نے کیس کی کازلسٹ منسوخ اور دوسرے بینچ کو منتقل کرنے پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد سے بھی جواب طلب کر لیا، جسٹس سردار اعجازاسحاق خان نے کہاکہ فرض کریں مستقبل میں ایک نہایت کرپٹ چیف جسٹس ہو تو اسکے پاس کیس اس طرح منتقل کرنے کا اختیار ہو گا؟،ایک پارٹی کے تین کیسز ہوں، چیف جسٹس کو درخواست دیں تو زیرسماعت کیس منتقل ہو سکتا ہے ؟،کیا آپ کرپشن اور اقرباء پروری کے دروازے کھول رہے ہیں؟،یہ انصاف کی عدالت کو گمراہ کرنے کے بھی مترادف ہے ،اسلام آباد ہائیکورٹ رولز میں نہیں ہے کہ جج کی مرضی کی بجائے چیف جسٹس کیس ٹرانسفر کر دے ،آپ ایک چیز کو انا کا مسئلہ بنا کر جو کچھ کر رہے ہیں وہ ہائیکورٹ کے بخیے ادھیڑ دے گا،ریاست نے اگر فیصلہ کر لیا ہے کہ انہوں نے انا کی جنگ جیتنی ہے تو میرا یہاں بیٹھنے کا کوئی فائدہ نہیں،اگر بڑے صاحب کی مرضی کہیں اور ہے تو وہ کہیں کہ میں کیس اپنے پاس لے لوں؟،بھلا جج رجسٹرار آفس کے مرہون منت ہے ؟ آفس فیصلہ کرے گا کہ جج نے کیس سننا ہے یا نہیں سننا؟،کیا کازلسٹ فیصلہ کریگی کہ عدالت انصاف کیسے دے گی؟،ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل نے کہاکہ ہم نے چیف جسٹس آفس سے ہدایت کیلئے معاملہ بھیجا، کیس لارجر بینچ کو منتقل کرنے کا کہا گیا،جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کہاکہ لارجر بینچ جو کارروائی کر رہا ہے اس عدالت کی کارروائی کی توہین میں کر رہا ہے ،جسٹس سردار اعجازاسحاق خان نے کہاکہ عوام کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہائیکورٹ کے جج عدلیہ کی آزادی پر اس تجاوز کو برداشت نہیں کرینگے ،مجھے رات کو اتنا دکھ ہوا ہے کہ بات یہاں پہنچ چکی ہے ،آپ اس حد تک آگے نکل گئے کہ کمیشن کو ایک منٹ تک ملاقات نہیں کرائی،آپ نے فیصلہ کر لیا کہ صدیوں کی روایات کو بھی ختم کر دینا ہے ،عدالت نے سماعت آج تک کیلئے ملتوی کردی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں