مذاکرات میں اچھی پیشرفت ہو رہی ،نتیجہ دو تین روز میں آجائے گا،لوگ خوش ہیں:اسرائیل انخلا پر تیار،حماس بھی غزہ کا کنٹرول چھوڑدے:ٹرمپ

مذاکرات میں اچھی پیشرفت ہو رہی ،نتیجہ دو تین روز میں آجائے گا،لوگ خوش ہیں:اسرائیل انخلا پر تیار،حماس بھی غزہ کا کنٹرول چھوڑدے:ٹرمپ

پاکستان سمیت 8مسلم ممالک کا حماس کی جانب سے ٹرمپ کی غزہ جنگ کے خاتمے کی تجویز پر مثبت اقدامات کا خیر مقدم 90 فیصد معاملات طے ،حماس کی تحلیل اور اسلحے کی واپسی مشکل مرحلہ ،معاہدے پر 100 فیصد یقین دہانی کوئی نہیں دے سکتا:یرغمالیوں کی رہائی کیلئے اسرائیل کو بمباری روکنی ہوگی:امریکی وزیر خارجہ اسرائیلی حملے ، 24 شہید،فلسطینی فٹبال فیڈریشن ہیڈ کوارٹر پر بھی حملہ، کئی زخمی ،حماس کاقیدیوں کے فوری تبادلہ ،مکمل جنگ بندی کا مطالبہ،مذاکرات میں شرکت کیلئے اسرائیلی وفد آج مصر پہنچے گا

قاہرہ،غزہ،واشنگٹن(اے ایف پی،دنیا مانیٹرنگ ) امریکی صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اسرائیل ابتدائی انخلا لائن پر متفق ہو گیا ہے ، حماس بھی غزہ کا کنٹرول چھوڑ دے ، غزہ جنگ بندی مذاکرات میں اچھی پیشرفت ہو رہی ، نتیجہ دو تین روز میں آ جائیگا ، لوگ خوش ہیں ،حماس کے اتفاق پر غزہ میں جنگ بندی فوری طور پر موثر ہو سکتی ہے ، ورنہ حماس کا خاتمہ کر دیں گے ۔ ٹرمپ نے کہا معاہدے میں ہمیں زیادہ لچک کی ضرورت نہیں کیونکہ سب ہی متفق ہیں، کچھ تبدیلیاں تو ہمیشہ ممکن رہتی ہیں۔انہوں نے کہا یہ منصوبہ بہت زبردست ہے ، ہم امن حاصل کرنے جا رہے ہیں۔ 3 ہزار سال میں پہلی بار مشرقِ وسطیٰ کے ایسے عمل کا حصہ بننے پر بہت فخر محسوس کرتا ہوں، ۔امریکی صدر نے کہا کہ اب مذاکرات ہو رہے ہیں، یرغمالیوں کی فوری واپسی ہو جائے گی، لوگ اس پیش رفت سے بہت خوش ہیں۔

امریکی صدر نے کہا انہیں امید ہے کہ غزہ میں یرغمال بنائے گئے افراد کو بہت جلد رہا کر دیا جائے گا،ٹرمپ نے کہا کہ انہیں اطلاع ملی ہے کہ مذاکرات بہت اچھے طریقے سے آگے بڑھ رہے ہیں،یہ اسرائیل کے لیے ایک بہترین معاہدہ ہے ، یہ پورے عرب اور مسلم دنیا کے لیے ایک شاندار معاہدہ ہے ، بلکہ پوری دنیا کے لیے بھی، اس لیے ہم اس پر بہت خوش ہیں۔ٹر مپ نے کہاغزہ کے لیے معاہدے پر مذاکرات چند دن میں طے پائیں گے ۔امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے کہا یرغمالیوں کی رہائی کے لیے اسرائیل کو بمباری روکنی ہوگی۔حملوں کے بیچ یرغمالی رہا نہیں ہو سکتے ،اس لیے حملوں کو روکنا ہوگا ،لاجسٹک مسائل کو حل کرنا ہوں گے ۔ انہوں نے خبردار کیا کہ جنگ جاری رہنے کی صورت میں سمجھوتہ ناممکن ہو گا۔

امریکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ بمباری کے دوران یرغمالی رہا نہیں کیے جا سکتے ، اس لیے حملے روکنے ہوں گے ۔ مارکو روبیو کا کہنا تھا کہ ایسی صورتحال میں جنگ جاری نہیں رہ سکتی۔ مارکو روبیو نے مزید کہا ہم اس وقت یرغمالیوں کی رہائی کے سب سے قریب ہیں، یہ معاملہ ہفتوں یا دنوں تک نہیں چل سکتا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ 90 فیصد معاملات طے ہو چکے ہیں، اُمید ہے معاہدہ اسی ہفتے کے آغاز میں مکمل ہو جائے گا، غزہ معاہدے پر 100 فیصد یقین دہانی کوئی نہیں دے سکتا۔ حماس کی تحلیل اور اسلحے کی واپسی مشکل مرحلہ ہوگا،غزہ میں ابھی جنگ کا اختتام نہیں ہوا، مزید کام کی ضرورت ہے ۔ادھر مصر میں غزہ جنگ بندی کیلئے دو روزہ مذاکرات جاری ہیں ، تمام ممالک کی مصر پر نظریں ہیں ، حماس نے قیدیوں کا فوری تبادلہ شروع کرنے کی اپیل کرتے ہوئے اسرائیل سے مکمل جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے ۔مصر کے شہر شرم الشیخ میں ہونے والے مذاکرات میں قیدیوں کی فہرست، زمینی حالات اور تکنیکی تفصیلات پر بات چیت جاری ہے ۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا اسرائیلی وفد با ضابطہ مذاکرات میں شرکت کیلئے آج پیر کو شرم الشیخ روانہ ہوگا، قبل ازیں ترجمان نے کہا تھا کہ وفد اتوار کو روانہ ہوگا، تاہم نیتن یاہو نے وضاحت کی کہ روانگی اب پیر کو ہوگی۔ انہوں نے بتایا کہ وفد کی قیادت اسٹریٹیجک امور کے وزیر رون ڈرمر کریں گے ۔ امریکی صدر ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر اور ایلچی اسٹیو وٹکوٖ ف ہفتے کو مصر پہنچ گئے تھے ۔

برطانوی میڈیا کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کو غزہ جنگ کے خاتمے کی امریکی کوششوں پر اندرونی دباؤ کا سامنا ہے ۔ ٹرمپ نے فوری جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے ، جبکہ اسرائیلی کابینہ میں شامل دائیں بازو کے وزرا اس اقدام کی سخت مخالفت کر رہے ہیں۔ سخت گیر عناصر کا کہنا ہے کہ جنگ کے بغیر حماس کو کمزور نہیں کیا جا سکتا۔ مصر میں مذاکرات جاری ہیں، مگر نیتن یاہو کو سیاسی اور عوامی دباؤ کا سامنا ہے جس سے فیصلہ سازی مشکل ہو گئی ہے ۔ حماس نے ہتھیار ڈالنے سے متعلق العربیہ کی رپورٹ کی تردید کردی، العربیہ نے رپورٹ میں کہا تھاکہ حماس ہتھیار ڈالنے پر راضی ہو گئی، حماس کے رہنما محمود مرداوی نے کہا ہے کہ العربیہ میں جاری خبر غلط ہے ،مقصد عوامی رائے کو گمراہ کر نا ہے ،ہتھیار ڈالنے کے موقف کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔حماس کے سینئررہنما موسیٰ ابو مرزوق نے کہا ہے کہ حماس قومی آزادی کی تحریک ہے ، دہشت گرد تنظیم قرار دینا قبول نہیں ہے ، قومی اتفاق رائے کے تحت غزہ کا انتظام غیرجانبدار افراد کے سپرد کیا جانا چاہیے اور یہ انتظام فلسطینی اتھارٹی کے زیرِ نظر ہونا چاہیے ، کیونکہ عوام کے مستقبل کا تعین ایک قومی مسئلہ ہے جس کا فیصلہ محض حماس نہیں کر سکتی۔مزید کہا ہے کہ منصوبے پر عمل کیلئے ثالثوں سے مذاکرات ضروری ہیں، حماس اپنی تحریک اور اسلحے سے متعلق تمام امور پر مذاکرات کرے گی،صدرٹرمپ فلسطینیوں کے مستقبل کو مثبت انداز میں دیکھیں، 72 گھنٹوں کے اندر قیدیوں اور لاشوں کی حوالگی محض نظریاتی طور پر ممکن ہے اور زمینی حقائق اس کی اجازت نہیں دیتے ۔ادھر غزہ میں اسرائیلی فضائی حملے جاری ہیں جن میں کم ازکم 24افراد شہید اور کئی زخمی ہو گئے ،ہفتے کو 60 شہادتیں رپورٹ ہوئیں۔ جبکہ ٹرمپ نے جمعہ کو حماس کے مجوزہ منصوبے کے جواب کے بعد اسرائیل سے کہا تھا کہ فوراً بمباری روک دے ۔اسرائیلی افواج نے الرام کے علاقے میں فلسطینی فٹبال فیڈریشن کے ہیڈ کوارٹر پر حملہ کر دیا، فٹبال فیڈریشن کے متعدد اہلکار زخمی ہو گئے ۔ غیرملکی میڈیا کے مطابق حملہ فلسطینی کھیل اور کھلاڑیوں کو نشانہ بنانے کی منظم پالیسی کا حصہ ہے ۔پی ایف اے نے کہا کہ فلسطینی فٹبال فیڈریشن کو اپنی سر زمین پر میچز کرانے کا حق نہیں دیا جا رہا۔

آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے دو ڈاکٹروں نے غزہ میں اسرائیلی بمباری کے بعد کی صورتحال کو قصاب خانہ قرار دیا ہے ۔ ڈاکٹر سایا عزیز اور فلسطینی نژاد آسٹریلوی ڈاکٹر ندا ابو الرب نے کہا کہ ہسپتال زخمیوں اور لاشوں سے بھر چکے ، بچوں کے جسم چاک چاک ہیں اور ہر طرف خون ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ویڈیوز تباہی کی مکمل تصویر نہیں دکھاتیں، اصل قیامت وہاں کے مناظر، بدبو اور والدین کی چیخیں ہیں۔ اتوار کو اسرائیلی حکومت کی ترجمان نے صحافیوں کو بتایا کہ اگرچہ غزہ کی پٹی کے اندر کچھ حد تک بمباری رک گئی ہے مگر فی الحال جنگ بندی نافذ نہیں ہوئی۔اسرائیلی فوج کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ایال زامیر نے خبردار کیا ہے کہ اگر غزہ میں یرغمالیوں کی رہائی سے متعلق مذاکرات ناکام ہوئے تو اسرائیل دوبارہ فوجی کارروائی شروع کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت مکمل جنگ بندی نہیں ہے ، لیکن عسکری کامیابیوں کو سیاسی فوائد میں تبدیل کرنے کی کوشش جاری ہے ۔اسرائیلی وزیر دفاع نے بتایا کہ اب تک 9 لاکھ افرادغزہ شہر چھوڑ کر جنوب کی جانب منتقل ہو چکے ۔ اقوام متحدہ کے مطابق حملوں سے قبل شہر میں تقریباً 10 لاکھ افراد مقیم تھے ۔حماس کے اعلیٰ مذاکرات کار خلیل الحیّا نے اسرائیل کی حالیہ کارروائی کے بعد پہلی بار ٹی وی پر بیان دیا ہے ۔ دوحہ میں اسرائیلی حملے میں ان کے بیٹے سمیت چھ افراد شہید ہوئے تھے ، تاہم وہ خود بچ گئے ۔

الحیّا نے کہا کہ شہدا کا خون فتح اور فلسطینی قوم کی عزت کا راستہ بنے گا۔ یہ بیان ایسے وقت آیا ہے جب غزہ کی جنگ ختم کرنے کے لیے قاہرہ میں مذاکرات جاری ہیں۔سپین کے دارالحکومت میں میڈرڈ میں فلسطینی حمایت میں ہونے والے ایک مارچ کے دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، جن میں 8 افراد گرفتار اور 20 پولیس اہلکار زخمی ہو گئے ۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج کیا۔ حماس کا وفد جنگ بندی کی شرائط پر مذاکرات کے لیے مصر پہنچ گیا ہے ۔ وفد کی قیادت حماس کے سینئر رہنما اور چیف مذاکرات کار خلیل الحیہ کر رہے ہیں، جنہیں اسرائیلی حملے کی کوشش کے بعد پہلی بار دوحہ میں ویڈیو میں دیکھا گیا ہے ۔ ذرائع کے مطابق اسرائیل اور حماس کے درمیان بالواسطہ مذاکرات آج پیر سے شروع ہونے کا امکان ہے ۔ مصر ان مذاکرات کی میزبانی اور ثالثی کرے گا، جبکہ عالمی برداری کی نظریں اس اہم پیش رفت پر جمی ہوئی ہیں۔

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستان سمیت آٹھ مسلم ممالک اردن ، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، جمہوریہ ترکیہ ، سعودی عرب، قطر اور مصر کے وزرائے خارجہ نے گزشتہ روز ایک مشترکہ بیان میں حماس کی جانب سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی غزہ جنگ کے خاتمے کی تجویز پر مثبت اقدامات کا خیرمقدم کیا ہے ۔اس تجویز میں تمام یرغمالیوں کی رہائی اور اس منصوبے کے نفاذ کے طریقہِ کار پر فوری مذاکرات کے آغاز کی بات

 کی گئی ہے ۔وزرائے خارجہ نے صدر ٹرمپ کی جانب سے اسرائیل کو بمباری فوراً روکنے اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے پر عملدرآمد شروع کرنے کی اپیل کا بھی خیرمقدم کیا۔وزرائے خارجہ نے خطے میں امن کے قیام کے لیے صدر ٹرمپ کے عزم کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ پیشرفت ایک جامع اور دیرپا جنگ بندی کے لیے حقیقی موقع فراہم کرتی ہے جس سے غزہ کے عوام کو درپیش سنگین انسانی بحران کا ازالہ ممکن ہو سکے گا۔بیان میں وزرائے خارجہ نے حماس کی جانب سے غزہ کی انتظامیہ ایک عبوری فلسطینی انتظامی کمیٹی، جو آزاد ماہرین پر مشتمل ہو، کے حوالے کرنے کی آمادگی کے اعلان کا بھی خیرمقدم کیا۔انھوں نے زور دیا کہ تجویز کے تمام پہلوؤں پر بات چیت کے لیے فوری مذاکرات شروع کیے جائیں تاکہ اس کے نفاذ کے طریقہِ کار پر اتفاق کیا جا سکے ۔

وزرائے خارجہ نے مشترکہ طور پر اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ اس تجویز کے نفاذ، غزہ میں جنگ کے فوری خاتمے اور ایک جامع معاہدے کے لیے کوششیں جاری رکھیں گے ۔مزید کہا گیا ہے کہ یہ معاہدہ انسانی امداد کی بلا روک ٹوک فراہمی، فلسطینی عوام کے جبری انخلا کی روک تھام، شہریوں کے تحفظ، یرغمالیوں کی رہائی، فلسطینی اتھارٹی کی غزہ میں واپسی، غزہ اور مغربی کنارے کے اتحاد، تمام فریقوں کے تحفظ کو یقینی بنانے والے سیکیورٹی میکنزم، اسرائیلی افواج کے مکمل انخلا اور غزہ کی تعمیرِ نو کا راستہ فراہم کرے گا تاکہ دو ریاستی حل کی بنیاد پر ایک منصفانہ اور پائیدار امن ممکن ہو سکے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں