ڈی جی آئی ایس پی آر نے زمینی حقائق قوم کے سامنے رکھ دئیے
(تجزیہ:سلمان غنی) مسلح افواج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری کی پشاور میں پریس کانفرنس جہاں موجودہ حالات، دہشت گردی کے رجحانات اور ان کے سدِ باب کے لیے اقدامات کے حوالے سے واضح اور بروقت قرار دی جا سکتی ہے ،
وہیں اس سے یہ بھی ظاہر ہو گیا ہے کہ پختونخوا حکومت دہشت گردی کے خلاف اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر سکی۔ یہ بھی واضح ہوا کہ دہشت گردی کے خلاف قومی بیانیہ پر اتفاقِ رائے نہیں ہو سکا۔ آج اس جنگ میں ہمارے افسروں اور جوانوں کا خون بہایا جا رہا ہے ، سویلین دہشت گردی کا شکار بن رہے ہیں ۔لہٰذا ہمیں یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کیسے نتیجہ خیز بنائی جائے ، افغان سرزمین کے استعمال کو کیوں روکا نہیں جا پا رہا اور اس حوالہ سے کیا برتا جائے ۔جو صورتحال پیدا ہو رہی ہے ، ہمارے فوجی اور سکیورٹی اداروں میں یکسوئی، سنجیدگی اور جذبہ و ولولہ موجود ہے ۔ افسروں اور جوانوں کی شہادتوں کے باوجود کسی قسم کی پسپائی نظر نہیں آ رہی لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف فوج کا کام نہیں؛ اس کے پیچھے ایک جذبہ و ولولہ کی ضرورت ہے جو سیاستدان، حکمران، علما و دیگر قائدین پیدا کرتے ہیں۔ آج سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ اگر ہم دہشت گردی سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں اور اس کی جڑیں کاٹنا چاہتے ہیں تو اپنے اندر اتحاد و یکجہتی پیدا کریں۔ دہشت گردی کے خلاف قومی بیانیہ اسی صورت میں کارگر اور نتیجہ خیز ہو گا۔ خود آئی ایس پی آر نے اپنی پریس کانفرنس کے ذریعے واضح کر دیا کہ اب تک ہماری سیاسی جماعتیں، قیادتیں اور دیگر ادارے قومی سلامتی کو درپیش چیلنجز کوروک نہیں سکے ۔ اگر فوج اپنی بنیادی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے شہادتوں کی تاریخ رقم کر رہی ہے تو ریاست اور سماج کو بھی اسی جذبے کے ساتھ اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ جب تک ہم بحیثیتِ قوم اپنی فوج کے پیچھے کھڑے نہ ہوں اور ہمارا بیانیہ یکساں نہ ہو، دہشت گردی سے چھٹکارا ممکن نہیں ہوگا۔ یہ کام ہماری سیاسی و مذہبی لیڈرشپ کو مل کر کرنا ہے ۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ایک شخص یہ تجویز دیتا ہے کہ آپریشن روک کر شدت پسندوں سے بات چیت کی جائے اور وہ کون ہے جسے اپنی صوبائی حکومت میں اس قسم کے خیالات برداشت نہیں کہ کوئی آپریشن کے خلاف کھڑا ہو جائے ؟ یہ بیانیہ دراصل عوام کے لیے کنفیوژن پیدا کرتا ہے ۔ کیا ان عناصر سے اب بھی مذاکرات کی گنجائش ہے جو ہمارے افسروں اور جوانوں کے خون کے ساتھ ہولی کھیل رہے ہیں؟ مذاکرات تبھی ممکن اور نتیجہ خیز ہوتے ہیں جب واضح شرائط ہوں اور اس کا کوئی سیاسی کیس موجود ہو۔حکومتوں کے حوالے سے تحفظات ہو سکتے ہیں اور ان کے جائز و ناجائز مفادات بھی ہوں گے ، لیکن ریاست کے منافی کام کرنا اور کسی کو اس کے خلاف متحرک کرنا سراسر غداری ہے ۔ ایسے افراد قابلِ قبول نہیں ہو سکتے ۔ آج کے حالات اس امر کے متقاضی نہیں کہ کوئی عنصر دہشت گردی کے خلاف لڑنے والی اپنی فوج کے خلاف گھٹیا بیانیے تراشے یا گمراہ کن پروپیگنڈا کرے ۔ یہ آخر کس کے خلاف کیا جا رہا ہے ؟ پاکستان ایک ذمہ دار ریاست ہے اور اسے یہاں آئین اور قانون کی بالادستی قائم رکھنی ہوگی ،ہمارا مستقبل آئین، قانون اور جمہوریت سے جڑا ہوا ہے ، اور اسی نظام کے تحت ہمیں آگے بڑھنا ہے ۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے زمینی حقائق قوم کے سامنے رکھ دئیے ہیں۔ ان کا یہ جائزہ دراصل ہماری قومی، مذہبی و سیاسی لیڈرشپ، میڈیا اور سول سوسائٹی کے لئے لمحۂ فکریہ ہے ۔ سب کو مل کر سوچنا پڑے گا کہ ایک جانب ہم عالمی محاذ پر سرخرو نظر آ رہے ہیں تو دوسری جانب دہشت گردی کا یہ عمل ہمارے لیے خطرناک ہے ، اس میں ہر طبقے کا کیا کردار ہے ؟ بلاشبہ قوم کو قومی جذبے کے تحت فوج کے پیچھے کھڑے ہونا ہوگا۔ دس مئی کو فوج اسی لیے سرخرو ہوئی تھی کہ قوم پیچھے کھڑی تھی۔ لہٰذا دہشت گردی کے سانپ کا سر کچلنے اور دہشت گردوں کو ان کے انجام تک پہنچانے کے لیے فوج کے پیچھے کھڑا ہونا ہوگا۔