27ویں ترمیم کیلئے حکومت کو 26ویں ترمیم جیسا ہی چیلنج درپیش
تحفظات کے باوجود پیپلز پارٹی کو کڑوی گولی نگلنا پڑے گی،اتفاقِ رائے ضروری ، ماہرین
(تجزیہ:سلمان غنی)
26ویں آئینی ترمیم کے بعد 27ویں آئینی ترمیم کی بازگشت تو جاری تھی، لیکن اب پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس حوالے سے جاری کھیل اپنی ایک ٹویٹ کے ذریعے عوام کے سامنے کھول دیا ۔ ان کے مطابق حکومت نے 27ویں آئینی ترمیم کا مسودہ پیپلز پارٹی کے ساتھ شیئر کر دیا ، جس میں آرٹیکل 243 میں ترمیم کرتے ہوئے فیلڈ مارشل کے منصب کا آئینی تحفظ، این ایف سی کے حوالے سے شعبوں میں تبدیلی، مستقل آئینی عدالتوں کا قیام، ججز کی تیاریوں کا عمل، چیف الیکشن کمیشن کی تقرری کے حوالے سے ڈیڈ لاک کا خاتمہ، تعلیم و بہبودِ آبادی کے محکموں کی وفاق کو واپسی سمیت دیگر ترامیم شامل ہیں۔27ویں ترمیم کے لیے نمبرز کے لحاظ سے حکومت کو 26ویں ترمیم جیسا ہی چیلنج درپیش ہے ، اور اس کے لیے جے یو آئی (ف) کی حمایت اہم ہوگی۔ البتہ سینیٹ میں جے یو آئی اور عوامی نیشنل پارٹی کے چار ووٹ بھی فیصلہ کن ثابت ہوں گے ۔اگر صرف نمبرز پر توجہ دی جائے تو حکومت کو نمبر گیم سے زیادہ ترمیم کے مندرجات پر اتفاق رائے پیدا کرنے کا چیلنج درپیش ہوگا۔
مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ اپنے تحفظات کے باوجود پیپلز پارٹی کو یہ کڑوی گولی نگلنا پڑے گی،سیاسی اعتبار سے دیکھا جائے تو سب سے بڑا مسئلہ صوبوں کے وسائل میں کمی اور وفاقی مالی توازن کو بہتر بنانا ہے ، کیونکہ بدلتے ہوئے معاشی حالات میں وفاق کے لیے اضافی وسائل ناگزیر ہو چکے ہیں مثلاً قرضوں پر سود کی ادائیگی، دفاعی اخراجات، وفاقی اداروں و وزارتوں کے اخراجات، ترقیاتی منصوبے ، سبسڈیز، اور پنشنز وغیرہ۔جب وفاق صوبوں کو وسائل سے مالا مال دیکھتا ہے تو احساسِ محرومی پیدا ہوتا ہے ، مگر اس کا کھلا اظہار ممکن نہیں۔ لہٰذا صوبے اپنے وسائل میں کٹوتی کو آسانی سے قبول نہیں کریں گے ، خاص طور پر سندھ اور پختونخوا کی حکومتیں اس پر شدید تحفظات ظاہر کریں گی۔جہاں تک فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کو بھارت کے خلاف جنگی فتح پر آئینی تحفظ دینے کا معاملہ ہے ، تو غالب امکان ہے کہ اس پر کوئی خاص اعتراض سامنے نہیں آئے گا، کیونکہ موجودہ حالات میں اسے ناگزیر سمجھا جا رہا ہے ۔عدالتی معاملات مثلاً ججز کی ٹرانسفرز اور آئینی عدالتوں کا قیام تکنیکی نوعیت کے ہیں، جن پر حکومت عدلیہ کو اعتماد میں لینے کی یقین دہانی کرا رہی ہے ۔
مسلم لیگ (ن) کا مؤقف ہے کہ 27ویں ترمیم کا مقصد وفاق اور صوبوں کے درمیان بیلنس قائم کرنا ہے ، اور اگر کسی کو تحفظات ہوں گے تو انہیں دور کیا جائے گا۔اگرچہ ابھی ترمیمی بل باضابطہ طور پر پیش نہیں ہوا، مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم جیسے حساس معاملے میں اتفاقِ رائے ضروری ہے ، ورنہ اس کے منفی اثرات صوبائی تعلقات پر پڑ سکتے ہیں۔فی الحال اطلاعات کے مطابق مجوزہ ترمیم میں 54 تجاویز شامل ہیں، چیف جسٹس کی تقرری کے حوالے سے بھی تجویز دی گئی ہے کہ تقرر پانچ سینئر ترین ججز میں سے کیا جائے اور حتمی منظوری حکومت دے ۔سیاسی ماہرین کے مطابق یہ ترمیم زیادہ تر فیصلہ ساز قوتوں کی ضرورت ہے ، اور موجودہ سیاسی جماعتوں کے پاس اتنی طاقت نہیں کہ وہ اس عمل کو روک سکیں۔ تاہم، انہیں چاہیے کہ صوبوں کے مفادات کے حوالے سے حکومت کو متفقہ لائحہ عمل اپنانے پر مجبور کریں، تاکہ وفاق اور صوبوں کے تعلقات مزید کشیدہ نہ ہوں۔