صدر ٹرمپ کی مخالفت نے زہران ممدانی کو اور زیادہ پاپولر بنا دیا
یہودی ووٹرز کی حمایت حیران کن ،متوسط اور نچلے طبقے کی خاموش حمایت ملی
(تجزیہ:سلمان غنی)
انتخاب تو نیویارک کے میئر کا تھا اس انتخاب میں 34 سالہ مسلم زہران ممدانی کی عظیم فتح نے اسے دنیا بھر میں غیر معمولی بنا دیا ایک سال پہلے تک کوئی توقع نہیں کرسکتا تھا کہ زہران ممدانی جیسا نیا امیدوار صدر ٹرمپ ایلون مسک اور نیویارک کے کئی ارب پتی کاروباریوں اور صہیونی لابی کو سیاسی میدان میں چاروں شانے چیت کرکے رکھ دے گا جسے امریکا میں ماہرین جمہوری امریکا کیلئے امید کا بڑا سگنل قرار دیتے ہوئے سیاسی کرشمہ ،کچھ ایسے ہی زہران ممدانی کی انتخابی مہم کو دنیا بھر میں مقامی حکومتوں کے سسٹم کی انتخابی تاریخ میں موثر اور منظم مہم قرار دیا جا رہا ہے جس میں ان کا ٹارگٹ نیویارک کے ٹیکسی ڈرائیور، مہنگائی زدہ مسائل زدہ لوگ تھے ، ممدانی نے اپنے ایک لاکھ ورکرز کے ذریعے سب کا دروازہ کھٹکھٹایا اور انہیں اپنے ووٹ کی طاقت بارے سمجھایا اور انہیں بتایا کہ اب مالک مکان آپ کا استحصال نہیں کرسکے گا ۔ممدانی عوام کی آواز اور تبدیلی کی علامت بن گیا ۔صدر ٹرمپ کی مخالفت نے خود ممدانی کو اور زیادہ پاپولر بنا دیا۔
مطلب کہ اس الیکشن نے ثابت کردیا کہ امریکا میں روایتی سیاست اور سیاستدان کمزور پڑ رہے ہیں اور مڈل کلاس کی لیڈر شپ ابھر رہی ہے ۔زہران ممدانی کو شہر کے متوسط اور نچلے طبقے کی خاموش حمایت ملی یہ طبقہ تبدیلی چاہتا تھا اس نے ووٹ کی طاقت سے تبدیلی بنادی۔ اصل سوال یہ تھا کہ ممدانی کو آخر کیوں بلا رنگ ونسل اور مذہب کے حمایت ملی اس کا راستہ کیونکر روکا نہ جاسکا ۔البتہ یہودی ووٹرز کی جانب سے ان کی حمایت حیران کن ہے ۔یہودی جو اسرائیل فلسطین کے مسئلے پر بائیں بازو کی پوزیشن رکھتے تھے اور جو ایسے مسائل میں گرفتار تھے جو سوشل جسٹس اور کم کرایہ والے گھروں کے نعرے کی وجہ ہے ان کے حامی بن گئے اور نتائج کا اعلان کیا ہوا کہ امریکہ سمیت دنیا بھر میں ایک پیغام چلا گیا کہ مسائل کے ایشوز پر خلوص کا اظہار کرنے والا اور قیادت کا راستہ نہیں روکا جاسکتا اور اب یہ ممدانی کا کریڈٹ ہے کہ انہوں نے نیویارک کو دنیا کیلئے ایک ماڈل بنا کر پیش کردیا ۔ دوسری طرف انہیں نیویارک کے عوام کو ڈیلیور کرنا ہے انہیں عوام کے اعتماد پر پورا اترنا ہے ۔ نیویارک کی مقامی حکومت کے پاس مسائل کے ساتھ وسائل بھی ہیں ان وسائل کا بروقت اور بہتر استعمال نتیجہ خیز ہوگا تو سازشیں دم توڑ جائیں گی ۔
سازشوں اور مخالفت کا توڑ ہمیشہ سے کارکردگی رہا ہے جتنا عوام کے اعتماد پر پورا اتریں گے اتنا مخالفین کو مایوسی ہوگی اور پھر ایک وقت آئے گا کہ مخالفین بھی ان کا دم بھرتے نظر آئیں گے ۔ نیویارک جہاں صہیونی حمایت کے بغیر یوں جیت نہیں سکتا ، جس نے پرانی روایت کو توڑ دیا، اس نے بار بار واضح کیا کہ وہ مسلمان ہیں لیکن کسی قوم یا مذہب کے خلاف نہیں ان کی اصل تنقید اسرائیل کی پالیسیوں اور فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف تھی اور امریکا میں اس موقف کو بڑا خطرہ سمجھاجا رہا تھا مگر ممدانی نے اس موقف پر پسپائی کی بجائے طاقت بنایا اور مظلوم کیلئے آواز کو عوام کی آواز بنا دیا ۔نیویارک سے کمٹمٹ کا عالم یہ کہ پوچھا گیا کہ جیت گئے تو پہلا دورہ کس ملک کا کریں گے کہا کہ نیویارک کا ہی دورہ کروں گا جس نے مجھے میئر بنایا ۔نیویارک کے انتخابی نتائج کی اہم بات مخالف امیدوار نے دھاندلی کے الزامات کی بجائے شکست کو تسلیم کرلیا اور پھر امریکی جمہوریت کو چن لیا ۔لندن میں محمد صادق اور نیویارک میں ممدانی کی جیت کو مغرب میں غیر معمولی قرار دیا جا رہا ہے ۔ لہٰذا دنیا کے دو بڑے شہروں میں دو مسلمانوں کی آمد کوامن ، محبت بھائی چارہ اور خدمت کے حوالہ سے اہم قرار دیا جا رہا ہے جو آنے والے وقت میں بڑی تبدیلی کا باعث بن سکتی ہے ۔