وفاقی آئینی عدالت کی بازگشت، اپوزیشن کا پارلیمان میں پلڑا بھاری
ایوان میں حکومتی و اپوزیشن ارکان کی نوک جھونک، سیاسی ماحول میں گرما گرمی رہی
اسلام آباد (سہیل خان) قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان میثاقِ جمہور یت کے تحت وفاقی آئینی عدالت کے قیام پر اتفاقِ رائے کی فضا بن گئی۔ حکومت نے مؤقف اختیار کیا کہ آئینی تنازعات کے حل کے لیے الگ عدالت کا قیام عوام کی خواہش ہے ۔ وفاقی وزیر پارلیمانی امور ڈاکٹر طارق فضل نے کہا کہ میثاقِ جمہوریت میں بھی طے ہوا تھا کہ آئینی تنازعاتکے باعث عام سائلین کے مقدمات زیرِ التوا رہتے ہیں، اس لیے علیحدہ عدالت ضروری ہے ۔ایوان میں وفاقی وزیر اور اپوزیشن ارکان کے درمیان نوک جھونک بھی جاری رہی۔ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے نامزد اپوزیشن لیڈر محمود خان اچکزئی کو باضابطہ اپوزیشن لیڈر بنانے کی اپیل کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف کے غیر ملکی دوروں پر تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم بیس ماہ میں چونتیس دورے کر چکے ہیں اور اکثر وقت بیرون ملک گزارتے ہیں۔اجلاس کے دوران ‘‘اپوزیشن لیڈر مقرر کرو’’ کے نعرے لگے ۔ ڈپٹی سپیکر نے اپوزیشن رہنماؤں کو سپیکر ایاز صادق کے چیمبر آنے کی دعوت دی اور کہا کہ اپوزیشن لیڈر کے معاملے سے متعلق مقدمے کی اطلاع موصول ہوئی ہے ۔ قومی اسمبلی کے اجلاس سے ایوان میں رونق بحال ہو گئی۔ اپوزیشن بینچوں پر مولانا فضل الرحمان، محمود خان اچکزئی اور بیرسٹر گوہر سمیت متعدد رہنما موجود تھے ۔وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کی بھی پارلیمان میں پہلی آمد ہوئی۔ انہوں نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ یہاں ایک وزیراعلیٰ انصاف کے لیے آیا ہے ، ہم سب دروازوں پر دستک دے چکے ہیں۔ ایوان میں بیرسٹر گوہر نے سہیل آفریدی سے ملاقات کی اجازت نہ ملنے پر قرارداد پیش کی۔ پی ٹی آئی نے ستائیسویں آئینی ترمیم مسترد کرتے ہوئے اجتماعی نعرے لگائے جن کی قیادت اقبال آفریدی نے کی۔ اپوزیشن کی اکثریت اور جوش و خروش سے ایوان کا ماحول خاصا گرما گیا۔