افغانستان کیخلاف کارروائی کا انحصار انکے طرز عمل پر ہوگا : وزیر دفاع
افغان طالبان کے تحریری گارنٹی سے انکارپر مذاکرات آگے نہ بڑھ سکے :خواجہ آصف 27ویں ترمیم پر اعتراض کرنے والی کوئی بات نہیں :روزنامہ دنیا سے گفتگو،بیان
لاہور(سلمان غنی،مانیٹرنگ ڈیسک )وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ پاکستان کی ترجیح اپنی سرزمین کو دہشت گردی سے پاک کرنا ہے او راس بنیاد پر ہم اپنی طے شدہ حکمت عملی پر گامزن ہیں، افغانستان کے خلاف کسی بھی کارروائی کا انحصار ان کے طرز عمل پر ہوگا، استنبول میں مذاکراتی عمل کی کامیابی کیلئے ثالثوں کا کردار اہم رہا مگر طالبان کسی بھی تحریری گارنٹی سے انکاری تھے جس بنیاد پر مذاکرات آگے نہ بڑھ سکے اور مستقبل قریب میں ان مذاکرات کی بحالی کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔ وہ روزنامہ دنیا سے خصوصی بات چیت کر رہے تھے ۔ خواجہ آصف نے مزید کہا کہ مذاکراتی عمل میں قطر اور ترکیہ کے ذمہ داران موجود رہے اور وہ جنگ بندی کے تسلسل اور دہشت گردی کے خاتمہ پر اتفاق رائے پر زور دیتے رہے مگر افسوس یہ نتیجہ خیز نہ ہو سکا۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی دہشت گردی کیلئے بھارتی کردار ڈھکا چھپا نہیں رہا ، ایک مرتبہ پھر سے بھارت کی جانب سے افغان سرزمین کا دہشت گردی کیلئے استعمال جاری ہے ، ہم یہ برداشت نہیں کریں گے کہ کوئی ہماری سرزمین پر بری نگاہ ڈالے ، اب ایسے نہیں چلے گا باور کرادیا کہ اب انہیں دراندازی کی کارروائی کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی، دہشت گردوں کا بھرپور اور موثر علاج موجود ہے جو نتیجہ خیز ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ یہ چین کے ایک صوبہ کیلئے بھی مسئلہ بنے رہے ،دیگر ہمسایہ ممالک کو بھی ان سے شکایات ہیں آخر یہ خطہ میں امن و امان کیلئے کیونکر مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے بہت عرصہ تک ان کو ذمہ داری کا احساس دلایا انہیں دہشت گردی اور دہشت گردوں کے شواہد دیئے ،اب ہمارا اٹل اور اصولی فیصلہ ہے کہ ہمیں دہشت گردی کے ناسور کو ختم کرنا ، اس کی جڑیں کاٹنا ہیں اور یہ اہلیت پاکستان کی فورسز کے پاس ہے ، اگر ہم دہشت گردی کی عالمی جنگ جیت کر دنیا کو دکھا سکتے ہیں تو افغانستان سے دراندازی کا علاج بھی موجود ہے لہٰذا اب بھی گیند افغانستان کی کورٹ میں ہے انہیں دیکھنا ہوگا کہ ان کی سرزمین پر کون کون کیسے اور کیونکر دہشت گردی کیلئے سرگرم عمل ہے ۔
انہوں نے مزید کہاکہ ہماری فورسز پوری طرح الرٹ ہیں ہم نہیں چاہیں گے کہ خوامخواہ کا ٹکرا ؤ ہو لیکن اگر دراندازی ہوئی تو پھر جواب ملے گا اور ہمارا جواب نتیجہ خیز ہوگا۔ ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع نے کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان استنبول مذاکرات میں مکمل ڈیڈ لاک ہے اور پاکستانی وفداستنبول سے واپس آ رہا ہے ،مذاکرات کے اگلے دور کا کوئی پروگرام ہے نہ ہی اس کی کوئی اُمید ۔خواجہ آصف نے دعویٰ کیا کہ مذاکرات کے دوران افغان وفد بھی پاکستان کے موقف کو تسلیم کر رہا تھا لیکن یہ معاملہ وہ تحریر میں لانے پر راضی نہیں تھا وہ صرف زبانی کلامی کہہ رہے تھے کہ ہم پر اعتماد کیا جائے ۔خواجہ آصف نے کہا کہ افغان طالبان کی ڈھٹائی پر ثالثوں نے بھی ہاتھ اٹھا لئے ہیں کیونکہ اگر اُنہیں اُمید ہوتی کہ کوئی بریک تھرو ہو سکتا ہے تو پھر ہمارا وفد خالی ہاتھ واپس نہ آتا ۔
انہوں نے کہا کہ سیز فائر فی الحال اسی حد تک ہے کہ وہاں سے کوئی کارروائی نہ ہو اور اگر ایسا ہوا تو پھر پاکستان کارروائی کرے گا،اگر کالعدم ٹی ٹی پی کے لوگ افغان طالبان کے قابو میں نہیں ہیں تو پھر پاکستان کو انہیں قابو کرنے دیں اور اگر پاکستان افغانستان میں کارروائی کرتا ہے تو پھر افغانستان کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے ۔علاوہ ازیں اپنے ایک بیان میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ ترکیے اور قطر نے پاکستان کے مؤقف کی حمایت کی، جب افغانستان کی طرف سے سیز فائرکی خلاف ورزی ہوئی تو ہم مؤثرجواب دیں گے ۔ دوسری طرف وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک بیان میں کہا ہے کہ 27ویں ترمیم میں ایسی کوئی بات نہیں جس پر اعتراض کیا جائے ، قومی اسمبلی سے منگل یا بدھ کو یہ ترمیم منظور ہوسکتی ہے ،ترمیم سے متعلق حکومت کوئی جلدی نہیں کررہی، ترمیم پر دو ہفتوں سے بحث ہورہی ہے ۔
وزیر دفاع نے کہا کہ گزشتہ 8، 10 روز سے 27ویں ترمیم پر مذاکرات ہوئے ، وزیراعظم، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے ساتھ رابطے میں رہے ، کچھ دنوں میں اتحادیوں سے ترمیم سے متعلق مشاورت کی گئی، میرا خیال ہے کہ مولانا فضل الرحمن سے بھی مشاورت کی گئی ہے اگر نہیں کی گئی تو کرنی چاہیے ۔خواجہ آصف نے کہا کہ ہوسکتا ہے آرٹیکل 243 کے علاوہ دیگر بعض شقوں پر اتحادیوں کو اعتراضات ہوں۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ فیلڈ مارشل کا عہدہ پوری دنیا میں تاحیات ہوتا ہے ، یہ کہنا کہ مدت کو تاحیات کیا جارہا ہے اس پر لوگوں کو غلط فہمی ہورہی ہے ، مدت جس طرح پہلے قانون میں موجود ہے ویسے ہی رہے گی، آئندہ دو سے تین روز میں صورتحال واضح ہوجائے گی ۔