دہشتگردی کیخلاف آپریشنز میں تیزی، سہولت کار غائب ہونے لگے

دہشتگردی کیخلاف آپریشنز میں تیزی، سہولت کار غائب ہونے لگے

خیبرپختونخوا حکومت کے آپریشن سے متعلق تحفظات کا عمل نتیجہ خیزی میں حائل

(تجزیہ:سلمان غنی)

سکیورٹی فورسز کی جانب سے عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن میں تیزی یہ ظاہر کر رہی ہے کہ ریاست اور اس کے ادارے اس مرحلہ پر کسی کنفیوژن کے بغیر اپنی سرزمین کودہشت گردی سے پاک کرنے کے حوالے سے پرعزم ہیں اور ہر آنے والے دن میں وہ عسکریت پسندوں اور ان کے ٹھکانوں کو ٹارگٹ کرتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ گزشتہ روز بھی فورسز کی جانب سے ٹانک ، لکی مروت اور ڈیرہ بگٹی میں کارروائیاں کی گئیں۔ دس مئی کو پاکستانی افواج کے ہاتھوں بھارت کو ہونے والی شکست کے بعد بھارتی خفیہ ایجنسی را ایک طے شدہ حکمت عملی کے تحت مغربی بارڈر کے دونوں جانب دہشت گردوں کی سہولت کاری کر رہی ہے ، ان کو ہتھیاروں سمیت فنڈنگ تک مہیا کر رہی ہے ،افغان سرزمین پر بھارت اور افغانستان کی خفیہ ایجنسیوں کے گٹھ جوڑ کا مقصد دہشت گردی کو ہوا دے کر ایک طرف پاکستان کو اندرونی طور پر غیر مستحکم کرنا اور دوسری طرف دنیا کو یہ پیغام دینا ہے کہ پاکستان کی سرزمین پر دہشتگردی کے رجحانات فروغ پا رہے ہیں اور پاکستان کی فورسز ان کا مقابلہ نہیں کر پا رہیں۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی حکومت اور ریاست اس حوالہ سے یکسو ہیں کہ اب کسی قسم کی مصلحت کا شکار ہونے کی بجائے دہشت گردی اور دہشت گردوں کو ان کے انجام پر پہنچانا ہے جہاں تک مقامی آبادیوں کی جانب سے آپریشن کی حمایت کا تعلق ہے تو مقامی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی کا رجحان ان کی زندگیوں کو ہلکان اور پریشان کیے ہوئے ہے اور ان سے چھٹکارا ان کے خلاف موثر آپریشن اور انہیں انجام پر پہنچانے کے بغیر ممکن نہیں، لہٰذا وہ اپنی فورسز کو ہر ممکنہ تعاون فراہم کر رہے ہیں ، اس کے ساتھ ساتھ ایسی خبریں بھی آ رہی ہیں کہ جوں جوں آپریشن میں بہتری آ رہی ہے دہشت گردوں کے سہولت کار اپنے علاقوں میں منظر سے غائب ہو رہے ہیں جن کے حوالہ سے مقامی سطح پر پولیس اور دیگر ایجنسیوں کو متحرک کیا گیا ہے کہ وہ ان کا کھوج لگائیں اور بتائیں کہ وہ کہاں موجود ہیں اور ان کی سرگرمیاں کیا ہیں۔

اس حوالہ سے مقامی لوگوں کو بھی ان کی نشاندہی کیلئے کہا جا رہا ہے ، متاثرہ علاقوں سے پتہ چلا ہے کہ سہولت کاری کرنے والے اپنے اس مذموم عمل کے باعث دہشت گردوں اور ان کے پشت پنا ہوں سے بھاری رقوم اور اسلحہ لیتے ہیں اور اب آپریشن میں تیزی آنے کے بعد بعض حکومتی ایجنسیوں کے سامنے سرنڈر کرتے دکھائی دے رہے ہیں جہاں تک دہشت گردی کے خلاف آپریشن کی نتیجہ خیزی کا سوال ہے تو اس میں بڑی وجہ پالیسی میں عدم تسلسل اور سیاسی کمزوری بتایا جاتا ہے اور خصوصاً پختونخوا کے مختلف علاقوں اور خصوصاً قبائلی علاقہ جات میں جاری آپریشن کے حوالہ سے بتایا جاتا ہے کہ پختونخوا حکومت کے آپریشن بارے تحفظات کا عمل نتیجہ خیزی میں حائل ہے ۔ایسی رپورٹس بھی موجود ہیں کہ دہشت گردی کیخلاف نیشنل ایکشن پلان پر اس کی سپرٹ کے مطابق متاثرہ صوبائی حکومتوں نے موثر عملدرآمد نہیں کیا ،جس کے باعث سیاسی تقسیم نے ریاست کا مشترکہ بیانیہ کمزور کیا ۔صوبائی حکومت کی جانب سے ٹی ٹی پی کے حوالے سے اختیار کیے جانے والے نرم رویہ کانقصان ریاستی آپریشن کو ہوا اور ماہرین کا کہنا ہے کہ دہشت گردی محض قومی مسئلہ نہیں یہ گورننس اور امن نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سے وابستہ ہے ۔لہٰذااب نئی پیدا شدہ صورتحال میں آپریشن میں بہتری تبدیل شدہ حکمت عملی کے تحت ہے جس میں ریاست اور حکومت یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ دہشت گرد خواہ کوئی بھی ہو اور سہولت کاری جو بھی کرے کسی کے حوالہ سے ٹالرنس نہیں ہو گی اور دہشت گردی کے جڑیں اکھاڑے بغیر پسپائی اختیار نہیں کی جائے گی ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں