اپوزیشن پارلیمنٹ میں بات کرے کوئی راستہ نکل آئیگا ، سپیکر

 اپوزیشن پارلیمنٹ میں بات کرے کوئی راستہ نکل آئیگا ، سپیکر

اپوزیشن کااحتجاج ،سپیکر ڈائس کے سامنے نعرے ،سی ڈی اے ترمیمی بل منظور

اسلام آباد(سٹاف رپورٹر،نامہ نگار )سپیکر سردار ایاز صادق نے اس بات پر زور دیا کہ تمام مسائل کا پائیدار حل صرف پارلیمنٹ کے اندر بیٹھ کر بات چیت سے نکل سکتا ہے۔ پارلیمنٹ سے باہر کی باتوں کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر ہم یہاں بیٹھ کر بات چیت کریں تو یقین ہے کہ راستہ ضرور نکل آئے گا۔ میں پہلے بھی اپنا کردار ادا کر چکا ہوں لیکن اس کا مجھے مناسب صلہ نہیں ملا۔ تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا، تاہم جتنا میں نے آگے بڑھنے کی کوشش کی، اس سے زیادہ مجھے پیچھے ہٹنا پڑا۔ باوجود اس کے ، میں آج بھی اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہوں کیونکہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے ۔ آپ سب مشورہ کر لیں، میں حکومت سے بھی بات کروں گا۔

بیرسٹر گوہر نے سپیکر سے مطالبہ کیا کہ محمود خان اچکزئی کو اپوزیشن لیڈر نامزد کیا جائے تاکہ ان کے ذریعے مذاکرات کا باقاعدہ آغاز کیا جا سکے ۔ ہمیں ایک دوسرے کو جگہ دینی ہوگی اور "ایسی کی تیسی" والی پالیسی سے پیچھے ہٹنا ہوگا کیونکہ اس پالیسی سے نقصان ہوگا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ایک مائنس کیا گیا تو پھر یہ ایوان بھی مائنس ہو جائے گا۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن رہنما ورکنِ قومی اسمبلی بیرسٹر گوہر علی خان کے بیان کے جواب میں سپیکر نے کہا کہ میں نے متعلقہ معاملے پر چیف وہپ حزبِ اختلاف ملک عامر ڈوگر کو باضابطہ خط ارسال کر دیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ملک عامر ڈوگر نے ایوان میں ایک فائل دکھاتے ہوئے ’کورٹ آرڈر‘ کا حوالہ دیا تھا، تاہم اب تک وہ فائل مجھے موصول نہیں ہوئی جو ایوان میں پیش کی گئی تھی ،سپیکر قومی اسمبلی نے واضح کیا کہ سابق قائدِ حزبِ اختلاف سے متعلق معاملہ عدالت میں زیرِ التواء ہے اور عدالتی فیصلے کے بغیر کوئی اقدام قانونی طور پر ممکن نہیں۔ اس معاملے میں مجھے قانونی پابندی کا سامنا ہے ۔

جب تک عدالت کا واضح حکم موصول نہیں ہوتا میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا ، بیرسٹر گوہر علی خان کی جانب سے اپوزیشن اور حکومت میں کشیدگی کم کرنے لیے اپنے کردار کے حوالے سے دی گئی تجویز پر سپیکر نے کہا کہ آپ نے فرمایا کہ میں اپنا کردار ادا کروں۔ میں پہلے بھی اپنا کردار ادا کر چکا ہوں لیکن اس کا مجھے مناسب صلہ نہیں ملا۔ تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا، تاہم جتنا میں نے آگے بڑھنے کی کوشش کی، اس سے زیادہ مجھے پیچھے ہٹنا پڑا۔ باوجود اس کے ، میں آج بھی اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہوں کیونکہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے ۔ آپ سب مشورہ کر لیں، میں حکومت سے بھی بات کروں گاسپیکر قومی اسمبلی نے اداروں سے متعلق بیانات پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اداروں کو تنقید کا نشانہ بنانے سے نہ ایوان کو فائدہ ہوتا ہے نہ ملک کو۔ ادارے ہم سب کے ہیں۔ یہی ادارے سرحدوں کی حفاظت کر رہے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف برسرِپیکار ہیں۔ ہمیں وہی کام کرنا چاہئے جو پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے ، علاوہ ازیں قومی اسمبلی کے اجلاس میں کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے )ترمیمی بل 2025 کثرتِ رائے سے منظور کر لیا گیا۔

بل کی منظوری کے فور اً بعد اپوزیشن ارکان نے احتجاج کرتے ہوئے سپیکر ڈائس کے سامنے پہنچ کر نعرے بازی کی ۔پی ٹی آئی کے ارکان جن میں ثنااللہ مستی خیل ،اقبال آفریدی، علی محمد اور عامر ڈوگر شامل تھے نے نعرے لگواے ‘نہ وہ بھاگا نہ غدار قیدی نمبر 804، رہا کرو رہا کرو، عمران خان ،تیرے جانثار بے شمار بے شمار ۔تحریک تحفظ آئین پاکستان کے سربراہ محمود خان اچکزئی اپوزیشن احتجاج کی قیادت کرتے رہے جبکہ اپوزیشن ارکان نے بانی چیئرمین پی ٹی آئی کی تصاویر بھی اٹھا رکھی تھیں۔ بیرسٹر گوہر نے نکتہ اعتراض پرکہا کہ جمعہ کے بعد پوری قوم شدید تشویش میں مبتلا ہے ، جمہوریت کے دشمن چاہتے ہیں کہ ملک میں لڑائی بڑھے ، ہم چاہتے ہیں کہ اس کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے ایوان اپنا کردار ادا کرے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اس ایوان میں 180 اراکین کے ساتھ بیٹھنا تھا لیکن ہمارے ارکان کی تعداد فارم سینتالیس کے ذریعے کم کر دی گئی۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ ہم نے احتجاج کے باوجود وزیراعظم کی بات چیت کی پیشکش پر آپ کے ذریعے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی۔

ہم نے تیلی پھینکنے کی بجائے سیز فائر کرنا ہے ، پہلے ہم اپنے لیڈر کی رہائی چاہتے تھے اب ملاقات کا مطالبہ کر رہے ہیں، اگر ہمیں دیوار سے لگایا گیا تو یہ آگ سے کھیلنے کے مترادف ہوگا۔ بیرسٹر گوہر نے سپیکر سے مطالبہ کیا کہ محمود خان اچکزئی کو اپوزیشن لیڈر نامزد کیا جائے تاکہ ان کے ذریعے مذاکرات کا باقاعدہ آغاز کیا جا سکے ۔انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک دوسرے کو جگہ دینی ہوگی اور "ایسی کی تیسی" والی پالیسی سے پیچھے ہٹنا ہوگا کیونکہ اس پالیسی سے نقصان ہوگا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ایک مائنس کیا گیا تو پھر یہ ایوان بھی مائنس ہو جائے گا۔ توجہ مبذول نوٹس کے جواب میں وفاقی وزیرخزانہ نے بتایاکہ حکومت ٹیکس چوری پرایکشن لے گی اوراس حوالے سے ٹیکنالوجی سے مددلی جائیگی۔ رواں مالی سال کے دوران ٹیکس وصولیوں میں 10.3فیصداضافہ ہوا ، آئی ایم ایف رپورٹ کی 15سفارشات میں سے بیشتر پر حکومت پہلے سے کام کررہی ہے ۔

گزشتہ مالی سال کے دوران ایف بی آر کے محاصل کاحجم 11.7ٹریلین روپے تھاجوپیوستہ مالی سال میں حاصل شدہ محاصل سے 2.5ٹریلین روپے زیادہ تھا،گزشتہ سال ایف بی آرکے محاصل میں مجموعی طور پر 27 فیصداضافہ ہواتھا،گزشتہ مالی سال میں انکم ٹیکس میں 28فیصد، سیلزٹیکس 26، فیڈرل ایکسائزڈیوٹی میں 33فیصد اورکسٹم ڈیوٹی میں 16فیصداضافہ ہوا لہذاکسی طریقے سے یہ نہیں کہاجاسکتا کہ یہ کارکردگی درست نہیں ہے ۔اسی طرح جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی شرح میں بتدریج اضافہ ہواہے ، مالی سال 2023-24میں جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی شرح 8.5فیصدتھی جوگزشتہ مالی سال میں 10.3فیصدکی سطح پر آئی اورامید ہے کہ جاری مالی سال کے اختتام پر یہ 11فیصدکی سطح پر پہنچ جائیگی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں