خواتین کے حقوق اور اسلام
دور جاہلیت میں لڑکیوں کی ولادت کے بعد انہیں زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔ ان کو اپنے لئے عار و ذلت سمجھا جاتا تھا۔عورت کو دنیا نے جس نگاہ سے دیکھا وہ مختلف علاقوں میں مختلف رہی۔ یورپی دانشوروں میں مدتوں تک یہ سوال زیر بحث رہا کہ آیا عورت انسان بھی ہے یا نہیں،روما اس کوگھر کا اثاثہ سمجھتا تھا اور وہ وراثت کی طرح ورثاء میں منتقل ہوتی تھیں۔ یونانی اس کو شر‘ شیطان کی بیٹی اور آلہ کار سمجھتے تھے‘ یہودی ا س کو لعنت بدی کا مستحق اورجہنمی قرار دیتے تھے۔ یورپی اس کو باغ انسانیت کا کانٹا اور شجر ممنوعہ سمجھتے تھے، اور ان کی حکومت رومہ الکبریٰ میں خواتین کی حالت لونڈیوں سے بدتر تھی، ان سے جانوروں کی طرح کام لیا جاتا تھا۔
بقول مشہور دانشور سپرنگر‘ 9لاکھ خواتین کو یورپ میں زندہ جلا دیا گیا۔ رومنوں کی تعلیمات کی رو سے خواتین کلام مقدس کو چھو نہ سکتی تھیں اور کوئی عورت عبادت گاہ میں بھی داخل نہیں ہوسکتی تھی۔ ہندو مذہب میں ویدوں کی تعلیم کا دروازہ خواتین پر بند تھا۔ شوہر کے مرنے کے بعد اسے بھی چتا کے ساتھ جلا کر راکھ کر دیا جاتا تھا۔ اسی طرح چین میں بھی عورت انتہائی جبر و تشدد اور ظلم و ستم کا شکار تھی۔
اسلام کا نقطہ نظر مغرب سے قطعی مختلف ہے۔ دین اسلام نے عورت کو اس ذلت و پستی سے اٹھا کر عزت و شرف و منزلت کے بام عروج پر پہنچا دیا۔ اسلام خواتین کو چہرہ انسانیت کی زینت ‘ شادی کے بعد مردوں کیشریک حیات اور نسیمہ اخلاق کی نکہت تصور کرتا ہے۔ اسلام ان تمام فضائل و مسائل میں عورت کو حصہ دار بنادیتا ہے جسے مرد حاصل کرتے ہیں،اور یہ اعلان کرتا ہے کہ خاتون بھی ویسی ہی انسان ہے جیسا کہ مرد ہے، اسلام کی نگاہ میں عورت اور مرد کے درمیان میں کوئی فرق نہیں۔دونوں کو اپنے اپنے عمل کا اجر ملے گا۔ا
ارشاد باری تعالیٰ ہے ،ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ نے تم سب کو ایک نفس سے پیدا کیا اور اسی کی جنس کے جوڑے سے پیدا کیا‘‘۔(النساء ،1)
ترجمہ: ’’ مردجیسے عمل کریں گے ان کا وہ پھل پائیں گے، اور خواتین جیسے عمل کریں گی ، ان کا وہ پھل پائیں گی‘‘۔(سورہ النساء ، 5)
ایمان ، عمل صالح کے ساتھ روحانی ترقی کے جو درجات مرد کو مل سکتے ہیں، وہی درجات عورت کے لئے بھی ہیں۔ اس سے بھی اعمال صالح اور اخلاق حسنہ کے حصول کی ترغیب اور حیات طیبہ کاوعدہ کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ،’’ جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، خواہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ ہو وہ مومن، اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے، اور ایسے لوگوں کو ان کے اعمال کا بہترین اجر دیں گے‘‘۔(النحل ، 97 )
رسول اللہ ﷺ نے ا پنے قول و فعل سے عورت کو ذلت اور عار کے مقام سے اٹھا کر عزت و منزلت کے مقام پر پہنچا دیا۔ اسے متاع حیات کی بہترین جنس قرار دیا۔ اسلام نے عورت کو جو وسیع دینی تعلیمی، معاشرتی و اخلاقی حقوق عطا کئے ہیں، اور عزت و شرف کے جو اعلیٰ مراتب خواتین کے حصے میں آئے ہیں ۔دنیا کے کسی اور قدیم یا جدید مذہب اور معاشرے میں ان کی نظیر نہیں ملتی۔ یہ حقوق کبھی ماں کی حیثیت سے متعین کئے گئے ہیں تو کبھی بیوی اور بیٹی کی حیثیت سے عطا کئے گئے ہیں یعنی ہر روپ میں الگ اور منفرد حقوق کا گلدستہ ان کے لئے سجایا گیا ہے۔حدیث میں ہے کہ ’’ جنت تمہاری مائوں کے قدموں کے نیچے ہے‘‘۔ ماں کی خدمت کو جہاد پر ترجیح دی ہے، ماں کی نافرمانی کو حرام اور گناہ کبیرہ قرار دیا ہے۔حدیث میں ہے کہ ’’ جس کی لڑکیاں پیدا ہوں اور (وہ) اچھی طرح ان کی پرورش کرے یہی لڑکیاں اس کیلئے دروزخ سے آڑ بن جائیں گی‘‘۔(مسلم)
اسی طرح ارشاد ہوا کہ ’’ جس نے دو لڑکیوں کی پرورش کی، یہاں تک کہ وہ بالغ ہو گئیں، تو قیامت کے روز میں اور وہ اس طرح آئیں گے جیسے میرے ہاتھ کی دو انگلیاں ساتھ ساتھ ہیں‘‘۔ (مسلم)
ایک اور حدیث میں ہے کہ، ’’دنیا کی نعمتوں میں بہترین نعمت بیوی ہے‘‘۔(نسائی)
قرآن کریم اور احادیث نبویہ ﷺ میں جگہ جگہ عورتوں کے حقوق کی پاس داری اور ان سے حسن سلوک کیتاکید فرمائی گئی ہے۔یوم عرفہ کے مشہور اور تاریخی خطبہ میں بھی آپ ﷺنے عورتوں کے حقوق کو فراموش نہیں کیا اور فرمایاکہ ( ترجمہ(: ’’ لوگوں عورتوں کے بارے میں خدا سے ڈرو، اس لئے کہ تم نے ان کو اللہ کے نام سے حاصل کیاہے‘‘ ۔اس کے علاوہ آپ ﷺ نے بے شمار مواقعوں پر مردوں کو عورتوں کے ساتھ ادائے حقوق ‘ حسن سلوک اور بہتر معاشرت کی ترغیب دی ہے۔ عورتوں کی تعلیم و تربیت کو اس قدر ضروری قرار دیا گیا ہے جس قدر مردوں کی تعلیم و تربیت۔نبی کریم ﷺ کے زمانے میں جس طرح دین و اخلاق کی تعلیم مرد حاصل کرتے تھے ا سی طرح عورتیں بھی کرتی تھیں۔ آپ ﷺ نے ان کیلئے اوقات معین فرما دیئے تھے۔ حضور پاک ﷺ نے ملازمائوں کو بھی تعلیم دینے کا حکم دیا ہے۔ ارشاد ہے کہ،’’ جس کے پاس کوئی لونڈی ہو اور وہ اسے خوب تعلیم دے اور عمدہ تہذیب و آداب سکھائے ، پھر اس کو آزاد کر کے (اس کے ساتھ ) شادی کر لے، اس کیلئے دگنا اجر ہے‘‘۔ (بخاری)
قرون اولیٰ میں عورتوں نے مردوں کی طرح اسلامی علوم و فنون کے حصول اور اس کی نشر و اشاعت میں گرانقدر خدمات انجام دی ہیں۔ چنانچہ سب سے پہلے دین اسلام کو قبول کرنے کی سعادت ایک خاتون حضرت خدیجہ ؓ کے حصے میں آئی، اور اسلام میں سب سے پہلے جام شہادت نوش کرنے کا شرف بھی ایک خاتو ن حضرت سمعیہ ؓ کو نصیب ہوا۔ اور خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق ؓ کے قبول اسلام کاباعث بھی ایک خاتون ، حضرت عمرؓ کی ہمشیرہ کی دعوت اور استقامت ہے ۔یہ ہے وہ قدر جو جسے خواتین نے اسلامی شریعت کے تحت حاصل کیا ہے ، اور یہ ہے وہ اسلامی تعلیم جس پر عمل کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔