اسلامی ممالک کی مدد سے ڈراموں کی تیاری
ایک ڈرامے سے متاثر ہو کر گزشتہ سال میکسیکن جوڑے نے اسلام قبول کر لیا تھا ریما، ہمایوں سعید، عدنان صدیقی اورسعدیہ خان نئی سیریزکے لئے استنبول پہنچ گئے
ایک دورتھا کہ ہمارے ٹی وی ڈراموں کی مقبولیت دنیا بھر میں تھی ، پڑوسی ملک میں بھی ہمارے ٹی وی ڈرامے دیکھے جاتے تھے ۔ ان ڈراموں کے کیسٹ کے لئے بھارت یاترا کرنے والے پاکستانیوں سے رابطے کرتے تھے ، ہمارے ٹی وی ڈراموں کی مقبولیت نے بھارتی شو میں راج کپور کو بھی پاکستانی فنکاروں سے رابطے کرنے پر مجبور کردیاتھا۔ انہوں نے زیبا بختیار کولیکر فلم ’’حنا ‘‘ بنائی ۔ اس کا اسکرپٹ حسینہ معین سے لکھوایا۔پھر یہ دور بھی آیاکہ ہمارے گھروں میں غیر ملکی فلموں اور ڈراموں نے جگہ بنالی ۔ گلیمرز سے آراستہ ان ڈراموں کا سحر خواتین کے سر چڑھ کر بولنے لگا۔
ایسالگ رہاتھاکہ ہم اپنی تہذیب و اقدار کو بھولتے جارہے ہیں اور نئی نسل ان کے ڈراموں سے بچے متاثر ہونے لگے تھے ۔ سابقہ حکومت نے ان ڈراموں اورفلموں پر پابندی لگاکرایک اچھا قدم اٹھایا۔جس سے ان کا سحر ٹوٹ گیا۔مسلم تشخص کوابھارنے کے لئے اسلامی ممالک کے ڈرامے دکھائے جانے لگے ۔ ان میں ترکی کے ڈراموں نے ناظرین میں جگہ بنائی۔ اس دوران جب ایک ترک ڈرامہ ارطغرل غازی کے بارے میں نشر ہوا تو ا س نے انٹرٹینمنٹ کی دنیا کی سوچ کو بدلنا شروع کر دیا ۔ ڈرامے نے پوری دنیا کو اپنی طرف متوجہ ضرور کیا ہے ۔گزشتہ سال اس ڈرامے سے متاثر ہو کر ایک میکسیکو کے ایک جوڑے نے اسلام قبول کیا تھا۔ اس جوڑے کا کہنا تھا کہ ہم نے ڈرامے اور اس ملک کی دنیا بھر میں انسانی خدمت سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا ہے۔
ہمارے یہاں ایک زمانے میں سلیم احمد، اشفاق احمد، منو بھائی اور امجد اسلام امجد کے ڈرامے بہت مقبول ہوئے ۔ریڈیو پروگراموں کے نشر ہونے کا عرصہ اتنا طویل ہے کہ ریڈیو سننے والی ایک نسل ان ادیبوں کے ڈرامے دیکھ کر جوان ہوئی ۔ تحریک پاکستان کے پس منظر میں ’’تعبیر‘‘ پی ٹی وی سے نشر ہونے والا ان کا مقبول ڈرامہ تھا۔ انہوں نے نسیم حجازی کے ناول ’’ آخری چٹان ‘‘ سمیت کئی کتابوں کی ڈرامائی تشکیل کی جو پاکستان میں بے پناہ مقبول ہوئے ۔ان ناموں کی اگر آج پھر پروڈکشن ہو تو مزید مقبولیت حاصل کریں گے ۔تاریخی ڈراموں سے نہ صرف تفریح کے مواقع ملے بلکہ جولوگ مسلم امہ کی فتوحات سے نا آشنا تھے انہیں بھی ڈراموں کے ذریعے تحریک پاکستان اورمسلم امہ سے آگاہی حاصل ہوئی ۔
یہ سلسلہ اب کئی دہائیوں سے اب رکاہوا تھالیکن اب پاکستانی انٹرٹینمنٹ کی دنیا میں ایک ہلچل مچی ہوئی ہے اور کئی اداکار اور اہم لوگ اس طرف متوجہ ہوئے ہیں اور ترکی اور دیگر اسلامی ممالک کے تعاون سے عنقریب مشترکہ پروڈکشن شروع کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ترکی، مراکش اور بعض دیگر اسلامی ممالک میں بھی مشترکہ فلم سازی کیلئے شخصیات سے رابطہ قائم کیا جا رہا ہے۔
اداکار اینجن التان نے بھی پاکستانی ڈراموں میں کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے ۔ اسی پس منظر میں کئی اہم لوگ وقتاً فوقتاً پاکستان کا دورہ کرتے رہے ہیں۔ زیادہ اہم دورہ معروف اداکار جلال (عبدالرحمن غازی) اور پروڈیوسر کمال دیکدن کا ہے۔ انہوں نے پاکستانی اورترکی فنکاروں کے ساتھ ایک پروجیکٹ شروع کرنے کی منصوبہ کی ۔ کمال دیکدن اور ڈاکٹر کاشف انصاری کے مطابق وہ عنقریب تحریک کے خلافت کے مشہور کردار‘‘ ترک لالہ ’’پر سیریز کی پروڈکشن شروع کر رہے ہیں ۔پاکستانی فنکار ہمایوںسعید ،عدنان صدیقی، ریما اور سعدیہ خان ترکی کے شہراستنبول میں ہیں ۔ کہاجارہاہے مذکورہ ڈرامہ سیریزکی ریہرسل کے ساتھ کرداروں کے حوالے سے ڈریسز بھی تیار کرائے جا رہے ہیں۔اس فلم میں علامہ اقبال کی منتخب شاعری کو بھی شامل کیا جائے گا۔
تر ک لالہ عبدالرحمن پشاوری پشاور کی سرزمین کا جری سپوت تھا ، اپنے ترک بھائیوں کی محبت میں ان کیلئے جنگیں لڑتا رہا ، اس کی پوری زندگی طاغوتی طاقت کے خلاف جہاد میں گزری ۔ عبدالرحمن پشاوری کا مقبرہ ترکی کے شہر استنبول میں ہے اور آج بھی ملک کے طول و عرض سے ترک شہری اپنے اس ہیرو کو خراج عقیدت پیش کرنے آتے ہیں ۔ وہ صرف ایک مجاہد ہی نہیں تھے بلکہ قابل سفارتکار بھی تھے ۔ عبدالرحمن پشاوری کی پیدائش 1880کی دہائی میں پاکستانی شہر پشاور کے ایک بڑے خاندان میں ہوئی تھی ۔ والد کا نام غلام صمدانی ہے ۔زمانہ طالب علمی میں انگریزوں کے خلاف تحریک میں پیش پیش رہے ۔ انگریزوں کے خلاف مضمون لکھنے پر یونیورسٹی سے نکال دیا گیا۔جب تحریک خلافت شروع ہو ئی تو نوجوان عبدالرحمن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں میڈیکل کے طالب علم تھے ۔ ان دنوں برطانوی سامراجی حکومت برصغیر کے مسلمانوں کو اپنے ترک بھائیوں کی مسلح مدد کی اجازت نہیں دیتی تھی ۔پھر جب مولانا محمد علی جوہرنے ترکی طبی وفد میں جانے کیلئے اپیل کی تو عبدالرحمن نے لبیک کہا اور اپنا سب کچھ فروخت کر کے ذاتی پیسوں سے جانے کیلئے بے چین ہوگئے ۔1912میں ڈاکٹر مختار احمد میں ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل عملے کے ساتھ ترکی پہنچا پھر اس مجاہد کی پوری زندگی طاغوتی طاقتوں کے خلاف مسلح جہاد میں گزری۔ ایک رات ترکی میں راستہ چلتے ہوئے ان پر گولیوں کی بوچھاڑ ہوئی اور وہ بعد میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہو گئے ۔
لوگ عبدالرحمن پشاوری سے محبت کرتے تھے ،ان کے حوالے سے منعقدہ ایک تقریب میں شرکت کیلئے علامہ اقبال 1933ء میں جامعہ ملیہ دہلی آئے تھے ۔ انہوں نے اس پروگرام کی صدارت کی تھی۔ عبدالرحمان شہید کی شخصیت اور حوالہ انقلابی کا تھا ، انہوں نے آنے والی نسلوں کیلئے قربانی اور ایثار کی بے مثال نشانی چھوڑی ۔ آج اگر مسلمانوں میں ان کے نشان راہ پر چلنے کا جذبہ پیدا ہو جائے تو دنیا کا نقشہ تبدیل ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا ۔ ترک صدر نے پاکستان کے دورے کے موقع پر بتایا تھا کہ‘‘ جنگ نجات’’ میں پاکستانی عبدالرحمن پشاوری نے ہیرو کا کردار ادا کیا۔ ترکی میں ان کا یوم پیدائش قومی دن کے طور پر منایا جاتا ہے ۔
اداکارہ ریمانے کہا ترکی ہمارے لوگ جو پاکستانیوں کوعزت و احترام دیتے ہیں اس کا تصور عام پاکستانی نہیں کرسکتا۔ان کے ساتھ کام کرنا بہت شاندارتجربہ ہوگا۔ کئی فلموں کی شوٹنگز کرنے ترکی آتی رہی ہوں، یہ لوگ پروفیشنل ازم کے قائل ہیں ۔ ان سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں‘‘۔ یہ کوئی ڈرامہ نہیں بلکہ نظریہ ایک مشن ہے ۔