ناول ’’زندگی کے جھٹکے ‘‘

تحریر : صہیب مرغوب


بچپن ہی سے غموں کا مقابلہ کرتے ہوئے بڑی ہونے والی جینٹ والز نے 2005ء میںزندگی کے دکھ بیان کئے تو ان کی کتاب ’’دی گلاس کاسل کو وہٹنگ ایوارڈ (Whiting Award) مل گیا ۔ اقوام متحدہ کے فوڈ پروگرام سے منسلک ملازم کی بیٹی نادیہ اووسو(Nadia Owusu)نے جینٹ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ناول ’’آفٹر شاکس‘‘ میں سگے (اور سوتیلے بھی) رشتوں کی تلخیاں بیان کیں تو یہ کتاب بھی سٹالوں سے ہاتھوں ہاتھ بک گئی ۔جینٹ کو بھی اپنے ہی خاندان میںکئی المیوں کا سامنا تھا، رشتے داروں میں کبھی نہ نبھنے والی مخالفت تھی۔ شکل دیکھتے ہی بھڑ جانے والے رشتے دار۔نادیہ کا بچپن بھی انہی تلخیوں سے عبارت تھا ۔اس کی کہانی بھی وہٹمین ایوارڈ کی حقدار ٹھہرائی گئی۔

نادیہ کے بقول کتاب کا نام میں بہت  اہم پیغام ہے، زلزلے کے بعد بظاہر سب کچھ ٹھیک ٹھا ک ہو جاتا ہے لیکن زمین اندر سے پھٹ چکی ہوتی ہے، فالٹ لائنز کے ساتھ ساتھ برباد کر دینے والی لکیریں سی بن جاتی ہیں ۔ اس کی زندگی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ رشتے کسی زلزلے کی مانند ٹوٹتے ، بکھرتے گئے اور فالٹ لائینز کی طرح ان کے دیئے ہوئے زخم ساتھ ساتھ ہیں۔ ناول کا عنوان اگرچہ زلزلے سے لیاگیا ہے لیکن نادیہ کی کہانی زندگی کے جھٹکوں کے گرد گھومتی ہے ،وہ دوبرس کی تھی جب سگی ماں نے تعلق ختم کر لیا، ننھی بچی کو تنہا چھوڑ کر دوسری شادی رچا لی ۔ماں کیوں الگ ہوئی؟باپ نے کبھی نہیں بتایا، وہ اس موضوع پر بات ہی نہیں کرتے تھے۔ وہ والد کی آنکھوں کا تارہ تھی، دفتر سے آتے ہی نادیہ توجہ کا مرکز ہوتی۔وہ دو سال کی بچی کے ساتھ اس جیسا بھائی بھی بن جاتے۔ دس گیارہ برس تک باپ نے ماں کی کمی پوری کی۔ماں کے چھوڑ جانے کا صدمہ کیاہوتا ہے ، باپ کی شفقت نے محسوس ہی نہیںہونے دیا۔ وہ اسے جان سے بھی زیادہ پیار اسمجھتے تھے، دن بھرکی تھکن اتر جاتی تھی۔اگرچہ اس کا خاندان کافی وسیع تھا لیکن کئی ملکوں میں پھیل ہونے کے باعث خال خال ہی ملاقات ہوتی تھی۔سوتیلی ماں کے ساتھ اس کا ایک سوتیلا بھائی اور ایک سگی بہن بھی تھی۔

 زندگی نے ابھی اور آزمانا تھا، وہ 13 برس کی تھی جب والد بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تنہا کر گئے۔ان کی موت کے ساتھ زندگی کی ہر خوشی منوںمٹی میں دفن ہو گئی۔اب 13برس کی ننھی بچی تھی اور پہاڑ جیسی زندگی! 

’’ خود نوشت کم ناول ‘‘ میں نادیہ نے ہر لمحہ قاری کو جکڑے رکھاہے، ایک ایک لفظ درد کی کہانی ہے، قاری جان جاتا ہے کہ اس بچی پر کیا گزری ہوگی جس کی ماں تھی، مگر نام کی۔والد تھا مگر ان کا سایہ 13برس کی عمر سر سے اٹھ گیا ، پھر نادیہ کی زندگی ’’گھر کی نہ گھاٹ کی ‘‘جیسی ہو گئی!

یہ ناول ہمت ہار جانے ولاے تمام بچوں کے لئے بہت بڑا سبق ہے ، سگی ماں کی ٹھکرائی ہوئی بچی کس طرح نوعمری میں اپنے لئے جگہ بناتی ہے، اپنی ہمت،لگن اور کوشش سے چار او رچار دیواری کا بندوبست ہی نہیں کر پائی بلکہ نگر نگر گھومی، ملکوں ملکوں کی سیر کی،اور کئی براعظموں میں اپنے نقوش چھوڑے۔ثابت کر دکھایا کہ ’’ہمت مرداں مدد خدا‘‘۔

نادیہ کابچپن خانہ بدوش جیسا تھا، لیکن اچھا تھا۔ کبھی اس شہر میں تو کبھی اس شہر میں۔والد گھانا اور ماں آرمینیا سے تھیں۔ یو این او کے سماجی بہبود کے شعبے سے منسلک ہونے کے باعث والد کی تعیناتی کے شہر بدلتے رہتے تھے۔یہ خاندان کبھی برطانیہ تو کبھی اٹلی میں پڑائوڈالتا۔کئی مرتبہ تو اپنے ملک گھانا کا سفر بھی ہوا۔باپ اس کے ہیرو ہیں، اصلی ہیرو۔ان کی شفقت نے بتایا کہ باپ کیا ہوتا ہے۔ مگر ماں نے بیٹی پر محبت بھری نگاہ نہیں ڈالی ،ننھی بچی ماں کی آنکھوں میں اپنے لئے چمک کو ترستی رہی۔دوسری شادی کے بعد ماں کبھی کبھار ملنے آتی تھیں لیکن چھوڑ جانے کے لئے ۔باپ نے دوسری شادی کر لی لیکن باپ کی زندگی میں سوتیلا رشتہ بھی اچھا تھا۔باپ کے دنیا سے جاتے ہی سوتیلے رشتوں کا زہرزندگی میں گھلنے لگا ، سوتیلی ماں کے کئی راز بھی تھے،جنہیں سن کر زمین میں زندہ گڑ جانے کوجی چاہتا تھا۔

اپنے ان زخموں کے ساتھ وہ نیو یارک پہنچی۔وہاں کوئی گھر تھا نہ خاندان۔ بھری دنیا میں اکیلی تھی۔عزم یہی تھا کہ ہر بات بھول جائے گی۔صرف ایک خواہش تھی..... اپنی پہچان خود بنانے کی تمنا!اتنی سی عمر میں دنیا نے اسے ایک بات سکھا دی تھی....زندگی وہی ہے جو وہ خود بنائے گی، زندگی مٹھی میں بند ہے، وہ جیسا چاہے گی اس کا رب اسے ویسا ہی کر دے گا۔پھر وہ خانہ جنگی کے دوران ایتھوپیا میں والد کے ساتھ قیام پذیر رہی، جنگ و جدل کے قصے عام تھے لیکن والد کی ہمت نے اسے بھی دلیر بنادیا تھا۔وہ لکھتی ہے کہ ’’ کئی مرتبہ ہراسگی یا نسلی امتیاز کا سامنا کرنا پڑا‘‘۔ اس موضوع پر وہ کھل کر تو نہیں لکھ سکی،بس اتنا بیان کیا ہے کہ ’’ہراسگی کے وقت لڑکی کی کیا  کیفیت ہوتی ہے، بیان سے باہر ہے۔میں نے لڑکوں سے دوستی کرنے کی بجائے اپنے کام پر توجہ مرکوز رکھی‘‘۔  

  نوبت یہاں تک آ چکی تھی کہ ’’رشتے داروں کے خانے میں مالی امداد لینے کے لئے اسے ’’یتیم ‘‘ لکھنا پڑا۔ یتیم نہ لکھتی تو تعلیم مفت نہ ہوتی۔ پیس یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد اربن پلاننگ کے شعبے میں نام کمایا اور اس حیثیت سے متعدد ممالک کے دورے کئے، اب ایک نئی دنیا اس کے سامنے ہے،اپنی ہمت سے 39سالہ نادیہ نے کیریئر کو شانداربنا لیا۔ 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

سالگرہ پر بچے چاہتے ہیں کچھ خاص!

بچوں کو اس کائنات کی سب سے خوبصورت اور معصوم مخلوق کہا جاتا ہے ۔سب کیلئے ہی اپنے بچے بہت خاص ہوتے ہیں اور بچوں کیلئے خاص ہوتا ہے ان کا جنم دن۔جب وہ سمجھتے ہیں کہ گھر والوں کو سب کام چھوڑ کر صرف ان کی تیاری پر دھیان دینا چاہئے۔ بچوں کی سالگرہ کیلئے سجاؤٹ میں آپ ان تمام چیزوں کی فہرست بنائیں جن میں آپ کے بچوں کی دلچسپی شامل ہو تاکہ وہ اپنے اس خوبصورت دن کو یادگار بنا سکیں۔

’’ویمپائرفیس لفٹ‘‘

کیا آپ کے چہرے پر بڑھاپے کے یہ تین آثار نظر آتے ہیں؟ (1)جلد کی رنگت کا خون کی گردش کی کمی کی وجہ سے سر مئی ہو جانا۔ (2) چہرے کی ساخت کا گرنا اور لٹک جانا، پٹھوں اور کولاجن کے کم ہوجانے کی وجہ سے۔(3) جلد کی بناوٹ کا کم ملائم ہوجانا۔اس کے نتیجے میں چہرہ تھکاہوا اور لٹکا ہوا نظر آتا ہے۔ چہرے کی زندگی سے بھرپور اور گلابی رنگت (جیسا کہ جلد کی ہر رنگت کے چھوٹے بچوں میں اور نوجوانی میں دیکھی جاتی ہے)مدھم ہو کر بے رونق سرمئی ہو جاتی ہے۔

آج کا پکوان

کشمش کا بونٹ پلائو:اجزاء:گوشت ایک کلو، چاول ایک کلو، گھی آدھا کلو، دار چینی، الائچی، لونگ، زیرہ سفید 10، 10گرام، پیاز250گرام، ادرک 50گرام، بونٹ کی دال آدھا کلو، دھنیا20گرام، مرچ سیاہ 10گرام، کشمش200گرام، نمک حسب ضرورت، زعفران 5گرام۔

عزیز حامد مدنی اک چراغ تہ داماں

عزیز حامد مدنی نے نہ صرف شاعری بلکہ تنقید، تبصرے اور تقاریر میں ان روایات کی پاسداری کی جو عہد جدید میں آئینے کی حیثیت رکھتے ہیں

اردوشعریات میں خیال بندی

معنی آفرینی اور نازک خیالی کی طرح خیال بندی کی بھی جامع و مانع تعریف ہماری شعریات میں شاید موجود نہیں ہے اور ان تینوں اصطلاحوں میں کوئی واضح امتیاز نہیں کیا گیا ہے۔ مثلاً آزاد، ناسخ کے کلام پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

علامہ محمداقبالؒ کا فکروفلسفہ :شاعر مشرق کے فکر اور فلسفے کو عالمی شہرت ملی، مسلمانوں کو بے حد متاثر کیا

ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبالؒ بیسویں صدی کی نابغہ روز گار شخصیت تھی۔ وہ ایک معروف شاعر، مفکر، فلسفی،مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کے اہم رہنما تھے۔اپنے فکر و فلسفہ اور سیاسی نظریات سے اقبالؒ نے برصغیر کے مسلمانوں کو بے حد متاثر کیا۔ ان کے فکر اور فلسفے کو عالمی شہرت ملی۔