وزیراعظم کے وعدے اور سیاسی و معاشی چیلنجز
پی ڈی ایم بننے کے بعد سے سب سے زیادہ تبصرے اور تجزیئے اس اتحاد کے اغراض و مقاصد، افادیت، ملکی سیاست پر اثرات اور مقتدرہ کے ساتھ ممکنہ تعلقات پر ہوئے۔ پچھلے سال ستمبر سے لیکر اب تک، ہر دن ہر وقت ، ہر جگہ واحد موضوع بحث پی ڈی ایم اور اس کے ذریعے ہونے والی ممکنہ سیاسی تبدیلیاں رہا ہے لیکن جس انداز سے پی ڈی ایم کے غبارے سے ہوا نکلی ،ایک ہی شعر ذہن میں آتا ہے۔
بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو ایک قطرہ خون نہ نکلا
اب جس انداز سے پی ڈی ایم والے آپس میں لڑ رہے ہیں، اس سے تو یہی لگتا ہے کہ اتحاد اپنی موت آپ مر چکا ہے اب اس سے کسی سیاسی تبدیلی کو توقع لگانا ایک دیوانے کا خواب ہی ہو سکتا ہے۔ کوئی معجزہ ہی پی ڈی ایم کے مردہ گھوڑے میں جان ڈال سکتا ہے۔ سیاسی اتحادوں میں اختلافات بھی ہوتے ہیں لیکن جس انداز سے پی ڈی ایم والے ، بالخصوص پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما آپس میں دست و گریبان ہیں ،یہ سب کچھ اپنی مثال آپ ہے۔ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کی نشست کولیکر جس انداز سے ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کے رہنماایک دوسرے پر تنقید کے نشتر برسا رہے ہیں، اس سے تو یہی لگتا ہے ان دونوں سیاسی جماعتوں کے رہنما ابھی تک اپنے ماضی سے پیچھا نہیں چھڑا سکے۔
بلاول بھٹو زر داری کا بار بار رائے ونڈ جانا اور مریم نواز کا دو دن لاڑکانہ میں قیام کرنا محض چھوٹے سیاسی مفادات کے لیے تھا ،اس کا آئین کی حرمت اور قانون کی حکمرانی سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا۔ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ جو کہ میری نظر میں ایک اچھا طاقتور بیانیہ بن رہا تھا، کو صرف اور صرف اپنے اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا گیا جس کی وجہ سے ان کی سیاست کو نقصان پہنچا ہے۔
پی ڈی ایم کے بعد شہر اقتدار میں سب سے زیادہ زیر بحث آنے والا موضوع موجودہ حکومت کی باقی ماندہ مدت میں ممکنہ کارکردگی ہے۔ کیا وزیر اعظم عمران خان 2023ء تک اپنے وعدوں پر عمل درآمد کر پائیں گے؟ اور کیا عمران خان اپنی موجودہ ٹیم کے ساتھ ملک کودرپیش معاشی اور سیاسی چیلنجز کا حل ڈھونڈ پائیں گے ؟ یا پھر اسی طرح سستی سے آگے بڑھتے رہیں گے۔ مہنگائی اور بیروز گاری عروج پر ہے،معاشی اعشاریے بھی تسلی بخش نہیں گو کہ زر مبادلہ، ٹریڈ اور کرنٹ اکاونٹ کے حوالے سے مثبت خبریں آرہی ہیں لیکن جب تک ان کے ثمرات غریب آدمی تک نہیں پہنچتے ایسی خبروں کا تحریک انصاف کو کوئی سیاسی فائدہ نہیں ہوگا۔
ان سوالات کو لیکر جب ایک سے زائد حکومتی وزراء سے بات ہوئی تو دلچسپ جوابات سننے کو ملے۔ تحریک انصاف کے اندر ایک طبقے کا خیال ہے کہ آئندہ انتخابات میں ان کی پارٹی کی جیت یا ہار کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ عمران خان نے اپنے بیان کردہ احتسابی بیانیے پر کتنا عمل کیا؟ ایک وزیر کے مطابق حکومت نے نا صرف آٹا، شوگر، پیڑولیم اور آئی پی پیز پر تحقیقاتی رپورٹس تیار کروائیں بلکہ ان پر عمل درآمد بھی شروع کردیا ہے۔ کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب جہانگیر خان ترین اپنے بیٹے سمیت کرپشن کے حوالے سے کیسز پر ضمانتیں کروائیں گے۔ یا مشیر وزیر اعظم ندیم بابر کو ا پنے عہدوں سے ہاتھ دھوناپڑیں گے۔ وزراء کا کابینہ کی سطح پر احتساب ہو رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ماضی میں ہونے والی کرپشن پر بھی نظر ہے۔’’براڈ شیٹ رپورٹ‘‘ کے بہت سے کردار سامنے آ چکے ہیں۔ شریف خاندان ہو یا پھر زرداری خاندان، سب کے خلاف کیسز چل رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کی پوری کوشش ہے کہ یہ تمام کیسز اپنے منطقی انجام کو پہنچیں۔ اس بارے میں حکومت نیب کی جو بھی انتظامی مدد کر سکتی ہے، کرے گی۔
پنجاب سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزراء کا ماننا ہے کہ ’’انتخابات جیتنے کا واحد راستہ بہتر طرز حکومت ہی ہے۔ بد قسمتی سے گزشتہ اڑھائی سال کے دوران ہمارے بارے میں خاص طور پر پنجاب میں ایک ہی تاثر پختہ ہوا ہے کہ ہم لوگوں کی حکومت چلانے کے تیاری ہرگز نہیں تھی۔ رہی سہی کسر ہمارے ایک وزیرا علیٰ نے نکال دی ہے۔ اب ہمیں ہر کوئی نا اہلی کا طعنہ دیتا ہے۔ پنجاب کے اندر مسلم لیگ (ن) کے زور کو توڑنے کے لیے ہمیں بہت محنت کرنا پڑے گی، اگر 2023 ء میں بھی لوگوں کے مسائل اسی طرح رہے تو کوئی ہمیں ووٹ نہیں دے گا۔ سب سے اہم کام زراعت کے شعبے پر توجہ دیناہے ، پورے صوبے میں سڑکوں کی حالت بدتر ہو چکی ہے ، لوگ شکایتوں کے انبار لیکر پیش ہوتے ہیں، سیاست میں تاثر غلط ہو یا درست ، انتخابی سیاست پر اس کا خاص اثر پڑتا ہے‘‘۔
ایک وزیر کا تو یہاں تک کہنا تھا کہ آنے والے دو سال انتخابات میں کامیابی کیساتھ تحریک انصاف کے مستقبل کے حوالے سے بھی بہت اہم ہیں۔ وزیر اعظم کے ارد گرد رہنے والے حضرات کا کہنا ہے، عمران خان صاحب کو ان تمام چیلنجز کا بہت اچھے سے ادراک ہے اور ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے پوری کوشش بھی کر رہے ہیں۔ ایک معاون خصوصی کے مطابق بہت ساری مثبت چیزیں ہو رہی ہیں لیکن ہماری حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے اور اس پرقابو پانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔
ڈیڑھ سال بعد حکومت آخری سال میں داخل ہوجائے گی اور پانچواں سال الیکشن کا سال کہلاتا ہے جب پنچھی ہوا کا رخ دیکھ کر اڑنا بھی شروع کر دیتے ہیں۔اب وقت کم اور مقابلہ سخت ہے ، دیکھنا یہ ہوگا کہ سرکاری ٹیم باقی مدت میں کیا گل کھلاتی ہے، وہ اپنے منشور پر عمل کر پائے گی یا نہیں؟عوامی مسائل کو حل اور منشور پرعمل کئے بغیر اگلا انتخابی معرکہ کافی سخت ہو سکتا ہے۔