خیبر پختونخوا کابینہ میں ایک بار پھر اکھاڑ پچھاڑ

تحریر : عابد حمید


خیبرپختونخوا کابینہ میں ایک بارپھر اکھاڑ پچھاڑ کی گئی ہے ،اور گزشتہ سال اچانک کابینہ سے باہر کردیئے جانے والے عاطف خان اور شکیل احمد کو دوبارہ کابینہ میں شامل کر لیاگیا ہے۔ فضل شکوراوروفاقی وزیر علی امین گنڈا پور کے بھائی فیصل امین بھی خیبرپختونخوا کابینہ کا حصہ بن گئے ہیں۔ ایک اور وفاقی وزیر کی طرف سے بھی اپنے بیٹے کو کابینہ میں شامل کئے جانے کیلئے وزیراعلیٰ محمود خان پر دبائو تھا تاہم وہ اس دبائو میں نہیں آئے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعلیٰ اپنے سابق مشیر اجمل وزیر کو بھی واپس لائیں گے یا نہیں؟

اجمل وزیراس وقت اسلام آباد میں براجمان ہیں جہاں وہ ذرائع کے مطابق اہم لوگوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ پرانے چہروں کو واپس لانے سے کیا خیبرپختونخوا کابینہ کی کارکردگی بہتر ہوجائے گی؟کیا لوگوں کے مسائل حل ہو جائیںگے؟ان سوالوں کا جواب سبھی جانتے ہیں۔

عاطف خان وزارت سیاحت لینے پر بضد تھے ،ان کی ایک اور شرط ان کے ساتھ نکالے گئے شکیل احمد خان کی واپسی بھی تھی ، اول الذکر شرط تو پوری نہیں ہوسکی البتہ شکیل احمد خان کو کابینہ میں شامل کر دیا گیا ہے ۔ ذرائع کاکہناہے کہ عاطف خان کو وزارت صحت کا قلمدان سونپا جارہا ہے، فضل شکور کو قانون کا قلمدان دیئے جانے کا امکان ہے جس سے سابق صوبائی وزیرسلطان محمود کی واپسی کے راستے بند ہوگئے ہیں۔ سابق صوبائی وزیر قانون سلطان محمود کو گزشتہ سینیٹ انتخابات میں پیسوں کی لین دین کی ایک مبینہ ویڈیوسامنے آنے کی پاداش میں کابینہ سے فارغ کر دیا گیا تھا، بعض ذرائع کے مطابق سلطان محمود کو چند ماہ بعد دوبارہ کابینہ میں شامل کئے جانے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی ۔اب یہ معاملہ ختم ہوگیا ہے۔ وفاقی وزیر پرویزخٹک کے بھائی لیاقت خٹک کی علیٰحدگی کے بعد آبپاشی کا قلم دان فیصل امین گنڈاپور کو دیئے جانے کا امکان ہے۔ذرائع کا کہناہے کہ وزیراعظم عمران خان عاطف خان کی کابینہ میں واپسی چاہتے تھے۔ وزیراعلیٰ محمود خان کی ان سے چپقلش چلی آرہی تھی ۔یہ خلیج انہیں کابینہ سے نکالنے کے بعد مزید گہری ہوگئی تھی ۔ دونوں اہم شخصیات کے مابین صلح صفائی کروائی گئی ہے۔ اسی لئے عاطف خان محمود خان کی رضامندی کے بعد ہی کابینہ میں واپس آئے ہیں ،اور وزیر اعلیٰ کی شرائط پر ہی ان کی واپسی ہوئی ہے۔پی ٹی آئی کو اس کے اندرونی اختلافات نے شدید نقصان پہنچایا ہے ، وزیراعلیٰ محمود خان محنت کررہے ہیں لیکن صوبائی حکومت کی کارکردگی پھر بھی توقع کے مطابق نہیں ۔ وزیراعلیٰ محمود خان متعدد بار بعض ارکان کابینہ کو تنبیہ کرچکے ہیں لیکن ٹھوس کارروائی کا فقدان ہے۔ بعض وزراء اور مشیر وں کی کارکردگی بہتر نہیں، لیکن ان کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا جا رہا۔

 تجزیہ کاروں کے مطابق پی ٹی آئی کو کسی اپوزیشن کی ضرورت نہیں ،پارٹی اور حکومت کے اندر مختلف جارحانہ آوازوں کی موجودگی میں حکومت کسی دوسری طرف توجہ ہی نہیں دے پارہی ،بعض حلقوں کی جانب سے وزیراعلیٰ محمود خان پر تنقید کے بعد انہوں نے حکومتی امور پر زیادہ توجہ مرکوز کردی ہے اور تنقید کا جواب ’’خاموشی‘‘ سے دینے کی کوشش کررہے ہیں ۔ ان کے باقی کھلاڑیوں کو دیکھاجائے تو وہ عوامی توقعات پر پورا نہیں اتر پارہے ۔ عاطف خان کی واپسی سے یہ امید پیداہوچلی ہے کہ وہ عملی طورپر کچھ کر دکھائیں گے۔ عاطف خان وزیراعلیٰ محمود خان کی کابینہ میں بھی وزیر تھے اور ان کے پاس تعلیم کا محکمہ تھا جس میں بڑی حد تک اصلاحات کی گئی تھیں ۔تعلیم کے محکمے میں ہونے والی اصلاحات سے کوئی فائدہ ہوا تھا یہ نہیں لیکن ایک بات ضرور ہے کہ ان کے دور میں پچاس ہزار سے زائد بھرتیاں کی گئیں لیکن کرپشن کا الزام نہیں لگا ۔ اسی طرح شہرام ترکئی کی بلدیات میں بھی کارکردگی اچھی رہی تھی یہ دونوں وزراء پی ٹی آئی حکومت کا چہرہ بن گئے تھے ،اب ان کی واپسی سے جہاں کارکن خوش ہیں وہاں امید پیدا ہوچلی ہے کہ وہ وزیراعلیٰ محمود خان کے ساتھ مل کر بہتری لائیں گے۔

اس وقت مہنگائی کا جن عروج پر ہے ، رمضان المبارک کے آغاز کے ساتھ ہی گرانفروشوں نے چھریاں تیز کرلی ہیں۔ گوشت ،قیمہ ، سبزیوں اور پھلوں کی قیمتیں اچانک آسمان پر پہنچ گئی ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ان قیمتوں کو مانیٹر کرنے والا کوئی نہیں ۔بڑے گوشت کی قیمت پانچ سو روپے کلو سے بڑھ کر اچانک ساڑھے چھ سو روپے کلو تک پہنچ گئی ہے۔ وزیراعلیٰ اور ان کی ٹیم کو ان مسائل کے خاتمے کیلئے مل کر کام کرنا ہوگا۔ رمضان المبارک میں لوگوں کو ریلیف دینا ہوگابصورت دیگر عوام میں پایاجانے والا غصہ کسی بھی وقت سامنے آ سکتا ہے ۔

دوسری جانب سابقہ قبائلی علاقوں کے حوالے سے بعض لوگوں میں تشویش پائی جاتی ہے ایسی اطلاعات سامنے آرہی ہیں کہ ایک اہم شخصیت کو اہم حکومتی عہدے پر تعینات کیا جارہا ہے جو صرف سابقہ قبائلی علاقوں کے معاملات کو دیکھیں گے ۔ قبل ازیں اجمل وزیر کو لایاہی اسی لئے گیاتھا ، خیبرپختونخوا حکومت نے ’’تیز تر ترقیاتی پروگرام‘‘ کے نام سے وہاں ترقیاتی منصوبے شروع کردیئے ہیں ،وزیراعلیٰ محمود خان نے اس حوالے سے خصوصی ہدایات بھی جاری کی ہیں یہ وہ چھوٹے چھوٹے ترقیاتی منصوبے ہیں جن کی تکمیل سے لوگوں کو کچھ فائدہ ہوگا ، ادھر خیبرپختونخوا میں کورونا کی تباہ کاریاں بھی عروج پر ہیں ، ہسپتالوں میں بسترے بھرگئے ہیں۔ لیڈی ریڈنگ ہسپتال، ایچ ایم سی اور خیبرٹیچنگ ہسپتال میں بیڈز کم پڑگئے ہیں ، صوبائی حکومت کی جانب سے ایک بڑا قدم یہ اٹھایاگیا ہے کہ کورونا کے مریض کا علاج بھی صحت سہولت کارڈ میں شامل کر دیاگیا ہے ۔اس سے قبل مریض مہنگی ادویات اور سامان باہر سے لاتے تھے۔ مریض نجی ہسپتالوں میں بڑی رقوم دے کر علاج کروانے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ کورونا کے حوالے سے حکومت نے ایس او پیز تو جاری کردیئے ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہورہا ، بازاروں میں بغیر ماسک پھرنے پر پابندی عائد کی گئی تھی اور خلاف ورزی پر سخت کارروائی کی نوید سنائی گئی تھی لیکن اس طرف کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

آپسی میل ملاقات کے آداب

اسلام انسانی زندگی کی حفاظت اور اُس کی بقاء کا سب سے بڑا ضامن ہے وہ پوری انسانیت کو معاشرے میں ایک دوسرے کی جان ومال کی حفاظت اور حرمت کا پابند بناتا ہے اور جزا وسزا کے اُصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے بڑے متوازن انداز میں تنبیہ کرتا ہے: ’’اور جس جاندار کا مارنا اللہ نے حرام کیا ہے اسے قتل نہ کرنا مگر جائز طور پر (یعنی شریعت کے فتویٰ کی رُو سے) اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے (کہ ظالم قاتل سے بدلہ لے) تو اس کو چاہیے کہ قتل (کے قصاص) میں زیادتی نہ کرے کہ وہ منصورو فتح یاب ہے‘‘(سورۃ الاسراء:33)۔

شوال کی فضیلت

شوال کا شمار 4 حرمت والے مہینوں میں ہوتا ہے، جن کا ذکر قرآن پاک میں بھی آیا ہے

غزوہ اُحدمعرکہ حق و باطل

غزوہ بدر کی شکست کا بدلہ لینے کے لئے مشرکین مکہ نے مسلمانوں سے یہ جنگ لڑی غزوہ اُحد میں70 مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا، جن میں زیادہ تر انصار تھے

مسائل اور ان کا حل

غیر محرموں کی موجودگی میں نماز پڑھنے کی صورت میں عورت کا چہرہ ڈھانکنا سوال:عورت اگرگھرسے باہرنمازپڑھے توچہرہ ڈھانک کرپڑھ سکتی ہے؟ جواب:جی ہاں غیر محرموں کے سامنے نماز پڑھنے کی صورت میں چہرہ ڈھانک کرہی نماز پڑھیں۔(جامع ترمذی)

حکومت کے معاشی و سیاسی چیلنجز

الیکشن اور حکومت سازی میں مشکلات کو عبور کرنے کے بعد مسلم لیگ (ن) کو اب حکومت چلانے میں نئی مشکلات کا سامنا ہے اور ان میں سب سے بڑا چیلنج ہے معاشی عدم استحکام اور بڑھتی ہوئی مہنگائی۔حال ہی میں ختم ہونے والے آئی ایم ایف پروگرام کی کڑی شرائط خصوصاً ًپٹرولیم، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بڑے اضافے نے مہنگائی میں جو اضافہ کیا ہے اس سے مہنگائی کے شعلے کچھ ایسے بے قابو ہوئے ہیں کہ یہ اب ہر سمت پھیلتے دکھائی دیتے ہیں، جبکہ ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے ایک اور آئی ایم ایف پروگرام ناگزیر قرار دیا جا رہا ہے ۔

حکومت مخالف تحریک اور حکومتی صف بندی

مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو بنے ہوئے ابھی دو ماہ ہی ہوئے ہیں اور حکومت خود کو ملک کے حالات کے تناظر میں سنبھالنے کی کوشش کررہی ہے مگر اس کو مختلف محاذوں پر مختلف نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے ۔