شیر خداؓ کے فضائل و مناقب
حضرت علی المراتضی رضی اللہ تعالی عنہ ،شیر خدا کا نام علی، لقب حیدر و مرتضیٰ، کنیت ابولحسن اور ابوتراب ہے۔ آپ ؓ کا نسب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بہت قریب ہے۔ آپ ؓ کے والد ابو طالبؓ اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے والد ماجد حضرت عبداللہ ؓ حقیقی بھائی تھے ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ ماجدہ بنت اسد بن ہاشم تھیں۔ ماں باپ، دونوں طرف سے ہاشمی ہیں۔
سیدنا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چہرہ مبارک پرمسکراہٹ اور پیشانی پر سجدے کے نشان تھے۔ سادہ لباس زیب تن فرماتے ۔ آپ ؓ بہت زیادہ عبادت گزار تھے،اور بہت زیادہ روزے سے رہتے تھے۔گفتگو علم و حکمت و دانائی سے بھرپور ہوتی تھی۔ بچپن سے نہ صرف حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ رہے بلکہ آپ ﷺ ہی کی آغوش میں تربیت پائی۔ آپ ﷺ نے ان کے ساتھ بالکل فرزند کی طرح کا معاملہ کیا اور اپنی دامادی کا شرف بھی عطا فرمایا۔حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی خاتون جنت سیدہ فاطمہ الزہراؓ کے ساتھ آپ ؓ کا نکاح ہوا۔
حضرت علی المرتضیٰ ؓ نے انسانی حقوق اور معاشرے کی نیک بختی کے لئے سنہری اصول تعین کئے، اور قرآن کریم اورسیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر عمل پیرا ہوکر وہ عملی نمونہ پیش کیا جو آج بھی تاریخ اسلام میں چمک دمک سے مفکرین کی آنکھوں کو خیرہ کر رہا ہے۔ آج کی دنیا توقیر انسان کے جس معیار کے لئے جدوجہد کر رہی ہے،حضرت علیؓ نے 14سو سال پہلے اس سے کہیں بہتر وضاحت و عملی صورت پیش کردی تھی ۔یہ حقوق آپؓ نے عطا کر دیئے تھے۔
حضرت علیؓ کے اقوال و افکار اور افعال آج بھی انسانی حقوق کے علم برداروں کے لئے بہتر مستقبل کی راہ متعین کرتے ہیں ۔ حضرت علیؓ کے افکار قرآن اور سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پیوستہ رہے اور ان کی عملی تصویر تھے ۔ آپ ؓ کے افکار کا مرکزی نقطہ یہ تھا کی جبر و استبداد کا خاتمہ ہو۔ معاشرتی تفاوت دور ہو، اور تمام انسان اپنے حقوق سے بہرہ مندہوں۔ آپ ؓ ظلم و طغیان پیشہ طبقے کی گردن پر کھینچی ہوئی تلوار کی مانند تھے۔ آپ ؓ کی تمام تر توجہ عدل و انصاف کے قیام اور انسان کی توقیر کی بحالی پر مرکوز رہی۔ آپ ؓ نے زندگی کاہر لمحہ اسی مقصد کے لئے وقف کر دیا تھا۔کہ جہاں بھی مظلوم کے حقوق پر دست درازی ہوئی، کمزور انسان کو حقیر سمجھا گیا، اور ان پر رزق کے دروازے بند کئے گئے، حضرت علیرضی اللہ تعالیٰ عنہ فوراََ مدد کے لئے پہنچے۔ آپ ؓ نے حکومت سنبھالتے ہی معاشرے کے سرکش طبقے کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’ مجھے قسم ہے ، میں مظلوم کا ظالم سے انصاف ضرور کروں گا،اور ظالم کو نکیل ڈال کر حق کی جانب کھینچ لائوں گا چاہے اسے کتنا ہی ناگوار گزرے‘‘ ۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عدل و انصاف اور عوام کی فلاح و بہبودکو ریاست اور حکمران، دونوں کے مفاد میں قرار دیتے تھے ۔ اگر عدل و انصاف ہو گا اور عوام مطمئن ہوں گے تو ہی مملکت کو استحکام حاصل ہو گا، حکمران اندرونی خلفشار سے بھی بچے رہیں گے اور انہیں اپنے عوام کا اعتماد حاصل رہے گا۔ چنانچہ فرماتے ہیں: ’’حکمرانوں کے لئے سب سے بڑی آنکھوں کی ٹھنڈک اس میں ہے کہ شہروں میں عدل و انصاف برقرار رہے‘‘۔رعایا کی محبت اسی وقت ظاہر ہوتی ہے جب ان کی خیر خواہی ہو اور وہ ان کے اقتدار کواپنے سر پر پڑا بوجھ نہ سمجھیں۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ بات بخوبی جانتے تھے کہ اختیار آنے کے بعد عدل و انصاف کی حدود میں رہنا کتنا مشکل کام ہے ، یہ بڑا کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔آپ ؓ کے نزدیک عمال حکومت کا کام ہی یہ ہے کہ وہ عوام کے حقوق کی نگہداشت کریں۔اور کسی صورت میں ان کے حق پر آنچ نہ آنے دیں۔آپ ؓ نے جس کسی کو بھی گورنر مقرر کیایا کوئی اور ذمہ داریاں سونپیں یا معزول کیا اسی نظریے کے تحت کیا۔ آپ ؓ نے ایک عامل کو خط لکھا کہ ’’ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم نے بیت المال کی زمین ہتھیا لی ہے، اور جو کچھ تمہارے اختیار میں تھا تم نے اس پر قبضہ جما لیا ہے ، تم اپنا حساب ذرا مجھے لکھ بھیجو‘‘۔
آپ ؓ کے نزدیک خونریزی سے بڑھ کر کوئی چیز قابل نفرت نہ تھی۔حضرت علی کرم رضی اللہ تعالیٰ عنہ آزادی اظہار اور آزادی فکر کے قائل تھے۔ دوست ہو یا کوئی مخالف ، سب کے ساتھ ایک طرح سے پیش آتے تھے۔ آپؓ نے کسی کو اس کی مرضی کیخلاف کام کرنے پر مجبور نہیں کیا۔ کسی سے بیگار نہ لی، آپ ؓ نے حتیٰ کہ کسی کو اپنی بیت کرنے پر بھی مجبور نہیں کیا تھا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور میں غیر مسلموں کے ساتھ بھی مساوات و برابری کا سلوک کیا، وہ پر امن شہری کی حیثیت سے اپنے عقیدے پر عمل کرنے میں آزاد تھے۔ اور تمام حقوق کے حقدار تھے۔ انہیں کسی انسانی حق سے محروم نہیں کیا گیا تھا۔ مسلم و غیر مسلم کے ساتھ یہی برابری اور مساوات حضرت علیؓ کے ہر حکم میں نظر آتی ہے۔ آپؓ نے مصر کے گورنر کو ایک خط میں تحریر فرمایا کہ ’’رعایا میں دوقسم کے لوگ ہیں، ایک تو ہمارے جیسے دینی بھائی ہیں اور دوسرے غیر مسلم، ان کی لغزشیں بھی ہوں گی، خطائوں سے بھی واسطہ پڑے گا، اور ان کے ہاتھوں سے جان بوجھ کر یا پھر انجانے میں غلطیاں بھی ہوں گی، تم ان سے اسی طرح عفو و در گزر سے کام لینا جس طرح اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے عفو و در گزر کی دعا کرتے ہو‘‘۔ایک موقع پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: ’’ علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)سب سے اچھا فیصلہ کرنے والے ہیں‘‘۔
سیدنا حضرت علیرضی اللہ تعالیٰ عنہ غزوہ تبوک کے سوا تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ ہر معرکے میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی شجاعت و بہادری کا لوہا منوایا۔بدر،خندق و حنین اور خیبر کی غزوات میں بھی اپنی شجاعت و بہادری کے جوہر دکھائے۔ آپ رضی اللہ عنہ عشرہ بشرہ جیسے خوش نصیب صحابہ کرام ؓ میں شامل ہیں جن کو حضور نبی کریمﷺ نے دنیا میں ہی جنت کی بشارت و خوشخبری فرمادی تھی ۔آپؓ خلافت راشدہ کے اعلیٰ منصب پر فائز ہوئے ۔ آپ بیعت رضوان میں شریک ہوئے، اور صحابہ الشجرہ ؓکی جماعت میں شامل ہوئے۔ آپ ؓ نے مکی زندگی میں حضور نبی کریم ﷺکے ساتھ تمام مصائب جھیلے۔
سیدنا حضرت علی المرتضیٰرضی اللہ عنہکے فضائل و مناقب اور کردار و کارناموں سے تاریخ کے اوراق روشن ہیں۔ جن سے لوگ تا قیامت رہنمائی حاصل کرتے رہیں گے۔