حضرت علیؓ،باب العلم

تحریر : فقیر اللہ خان


آپ ؓ کے والد ابوطالبؓ مکہ کے ذی اثر اور باوقار لوگوں میں سے تھے۔ آنحضرتؐ کے دادا حضرت عبدالمطلبؓ بن ہاشم کی وفات کے بعد آپؐ نے اُنہی کی آغوش میں پرورش پائی۔ ابوطالب نے آپؐ کو تجارت کے معزّز پیشے سے روشناس کرایا۔ حضرت خدیجہؓ سے آنحضورؐ کے نکاح کا خطبہ بھی انہی نے پڑھایا۔ بعثتِ نبویؐ کے بعد جب آپؐ نے اعلانِ نبوّت فرمایا تو ابوطالبؓ نے قدم قدم پر آپؐ کی حمایت کا فریضہ سرانجام دیا، آپؐ کی حمایت کرنے پر آنحضورؐ اور آپؓ کے خاندان کو شعبِ ابی طالب میں تین سال تک محصُور رکھا گیا۔

جب مشرکینِ مکہ نے بنوہاشم اور بنو مطلب کو شعبِ ابی طالب میں محصُور کیا تو حضرت علیؓ بھی حضورپاک ﷺ کی حمایت میں اپنے والدین اور دوسرے اقرباء کے ساتھ تین برس تک ہولناک مصائب و آلام جھیلتے رہے، جب یہ محاصرہ ختم ہوا تو چند ہی ماہ بعد آپؓ کے شفیق باپ کا سایہ سَر سے اٹھ گیا، حضورپاک ﷺ کی مشفقانہ سرپرستی نے اُنہیں باپ کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔ حضرت علیؓ کی عمر اُس وقت سترہ سال تھی۔ حضرت ابوطالبؓ کی وفات کے دو ہی ماہ بعد حضرت خدیجۃ الکُبریٰ  ؓ اپنے خالقِ حقیقی سے جاملیں۔ اس کے بعد مشرکین کی طرف سے آپؐ اور آپؐ کے صحابہ ؓکیلئے حالات سخت سے سخت تر ہوتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ اللہ کی طرف سے آپ ﷺ کو ہجرتِ مدینہ کا حکم ملا۔آپ ﷺ حضرت علیؓ کو اپنے بستر مبارک پر سلا کر ہجرت پر تشریف لے گئے۔آپ امانتیں واپس کرنے کے بعدحضور پاک ﷺ کی طرف تشریف لے گئے۔ سرورِ عالم ﷺ مکہ سے ہجرت کے بعد چند دن قبا میں قیام فرمایا۔ ابھی آپؐ قبا ہی میں تھے کہ تین دن بعد حضرت علیؓ بھی ہجرت کرکے آپؐ کی خدمتِ اقدسؐ میں قبا آملے۔ وادیٔ قبا میں میزبانِ رسولؐ حضرت کلثومؓ بن الہدم نے حضرت علیؓ کو مہمان بنایا۔ جب حضرت علیؓ قبا پہنچے تو پیدل سفر کرنے کی وجہ سے اُن کے پاؤں میں آبلے پڑ گئے تھے۔ آنحضورؐ جب قبا سے مدینہ تشریف لے گئے تو حضرت علیؓ بھی آپؐ کے ہمراہ تھے۔ پھر جب کچھ ہی دنوں بعد مسجدِ نبویؐ کی تعمیر کا آغاز ہوا توصحابہ کرام ؓ کے شانہ بشانہ حضرت علیؓ نے بھی اُس کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 

آپؐ نے اپنی صاحبزادی سیّدہ فاطمۃ الزھراؓ سے نکاح کے لئے حضرت علیؓ کو منتخب فرمایا۔ آپﷺنے حضرت علیؓ سے پوچھا کہ تمہارے پاس مہرادا کرنے کے لیے کچھ ہے؟ وہ بولے، ایک گھوڑے اور زرہ کے سوا کچھ نہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ گھوڑا تو لڑائی کے لیے ہے البتہ زرہ فروخت کردو۔ حضرت علیؓ نے زرہ کو 480 درہم میں فروخت کردیا اور قیمت لاکر آنحضورؐ  کے سامنے پیش کردی۔ آپؐ نے حضرت بلالؓ کو حکم دیا کہ بازار سے عِطر اور خوشبو خرید لائیں اور آپﷺ نے خود نکاح پڑھایا اور دونوں میاں بیوی پر وضو کا پانی چھڑک کر اُن کے حق میں خیروبرکت کی دعا فرمائی۔

 حضورِ اکرمؐ نے حضرت فاطمہؓ سے مخاطب ہوکر فرمایا ’’میں نے تمہاری شادی اپنے خاندان کے بہترین شخص سے کی ہے‘‘۔ حضرت علیؓ اِس سے قبل آنحضورؐ کے ساتھ ہی رہتے تھے مگر اب ایک نئے مکان کی ضرورت پیش آئی۔ چنانچہ حارث بن نعمانؓ کا مکان اُن کی رہائش گاہ بنا۔ 

جب آنحضرتؐ مدینہ تشریف لے گئے تو مشرکین مکہ کے غیظ و غضب میں مزید اضافہ ہوگیا۔ انہوں نے اسلام کو مکمل طور پر ختم کرنے کے منصوبے بنانے شروع کردیے اور جب مشرکینِ مکہ کے ساتھ غزوات کا آغاز ہوا تو بدر ہو یا اُحد، خندق ہو یا خیبر ہر غزوہ میں حضرت علیؓ نے شمشیر بکف اور سرفروشی کے جوہر دکھائے۔ کفار کے خلاف 2ھ میں معرکہ غزوہ بدر میں آنحضرتؐ نے ایک عَلَم حضرت علیؓ کو عطا فرمایا۔ 9ھ میں حضور اکرمؐ جب غزوہ تبوک کے لیے روانہ ہوئے تو حضرت علیؓ کو مدینہ میں اپنا جانشین مقرر فرمایا۔ ابن ہشام کا بیان ہے کہ غزوہ تبوک سے واپسی پر سرورِ عالمؐ نے حضرت ابوبکرؓ صدیق کو امیر حج بناکر مکہ روانہ فرمایا۔ اسی اثناء میں سورہ براۃ نازل ہوئی تو آپؐ نے حضرت علیؓ کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ مکہ جاکر حج کے اجتماع میں یہ سورہ لوگوں کو سنائیں۔

حجۃ الوداع سے کچھ عرصہ قبل حضورِ اکرمؐ نے حضرت علیؓ کو یمن کے ایک مشہور قبیلہ کی طرف اسلام کی تبلیغ کے لیے بھیجا۔ حضرت علیؓ یمن گئے تو اس انداز سے لوگوں کو دعوتِ توحید دی کہ وہ بِلاتامّل حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔ 10ھ میں حضرت علیؓ یمن سے آکر ہی مکہ میں حجۃ الوداع میں شرکت کے لیے آئے حجۃ الوداع سے واپسی کے سفر میں حضورﷺ نے ایک مقام پر قیام فرمایا۔ ابنِ سعد کا بیان ہے کہ حجۃ الوداع (10ھ) کے بعد حضورؐ نے حضرت علیؓ کو 300 سوار دے کر یمن ہی کے ایک اور قبیلہ کی طرف اسلام کی حقانیت کو تسلیم کروانے کے لیے بھیجا لیکن قبیلہ والوں نے پہلے سخت مزاحمت کا مظاہرہ کیا۔ حضرت علیؓ نے ایک ہی حملے میں اُن کے کس بَل نکال دئیے۔ جب انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو اُن کے دو معززین حضرت علیؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر حلقۂ بگوشِ اسلام ہوگئے۔35ھ میں حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد حضرت علیؓ سریر آرائے خلافت ہوئے تو ہر طرف افراتفری پھیلی ہوئی تھی لیکن پھر بھی حضرت علیؓ نے حوصلہ اور صبر کا دامن نہ چھوڑا اور تمام مشکلات کا دیوانہ وار ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ آپؓ نے خلافتِ راشدہ کی کشتی کو گردابِ بلا سے نکالنے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔

خلیفہ چہارم حضرت علیؓ چار سال 9 ماہ آٹھ دن خلیفۃُ المسلمین رہے۔ آپ ؓقرآن پاک کے حافظ تھے اور اس کی ایک ایک آیت کے معنی اور شانِ نزول سے بخوبی واقف تھے، گویا تفسیرِ قرآن میں آپ ؓمرتبۂ کمال پر فائز تھے۔تقریر و خطابت میں اپنی مثال آپ ؓتھے۔ فنّ نحو کی ایجاد کا سہرا بھی حضرت علیؓ کے سر ہے۔حضرت نبی کریمؐ نے حضرت علیؓ کے متعلق فرمایا کہ ’’میں علم و حکمت کا شہر ہوں اور علی اُس کا دروازہ ہے‘‘۔آپؓ کو ’’باب العلم‘‘ کا خطاب پہلے ہی مل چکا تھا۔

19 رمضان 40ھ کی صبح نمازِ فجر کے وقت ایک خارجی عبدالرحمن بن ملجم نے عین اُس وقت زہرآلود تلوار سے آپؓ پر قاتلانہ حملہ کیا جب آپؓ کوفہ کی مسجد کے محراب میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

آپسی میل ملاقات کے آداب

اسلام انسانی زندگی کی حفاظت اور اُس کی بقاء کا سب سے بڑا ضامن ہے وہ پوری انسانیت کو معاشرے میں ایک دوسرے کی جان ومال کی حفاظت اور حرمت کا پابند بناتا ہے اور جزا وسزا کے اُصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے بڑے متوازن انداز میں تنبیہ کرتا ہے: ’’اور جس جاندار کا مارنا اللہ نے حرام کیا ہے اسے قتل نہ کرنا مگر جائز طور پر (یعنی شریعت کے فتویٰ کی رُو سے) اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے (کہ ظالم قاتل سے بدلہ لے) تو اس کو چاہیے کہ قتل (کے قصاص) میں زیادتی نہ کرے کہ وہ منصورو فتح یاب ہے‘‘(سورۃ الاسراء:33)۔

شوال کی فضیلت

شوال کا شمار 4 حرمت والے مہینوں میں ہوتا ہے، جن کا ذکر قرآن پاک میں بھی آیا ہے

غزوہ اُحدمعرکہ حق و باطل

غزوہ بدر کی شکست کا بدلہ لینے کے لئے مشرکین مکہ نے مسلمانوں سے یہ جنگ لڑی غزوہ اُحد میں70 مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا، جن میں زیادہ تر انصار تھے

مسائل اور ان کا حل

غیر محرموں کی موجودگی میں نماز پڑھنے کی صورت میں عورت کا چہرہ ڈھانکنا سوال:عورت اگرگھرسے باہرنمازپڑھے توچہرہ ڈھانک کرپڑھ سکتی ہے؟ جواب:جی ہاں غیر محرموں کے سامنے نماز پڑھنے کی صورت میں چہرہ ڈھانک کرہی نماز پڑھیں۔(جامع ترمذی)

حکومت کے معاشی و سیاسی چیلنجز

الیکشن اور حکومت سازی میں مشکلات کو عبور کرنے کے بعد مسلم لیگ (ن) کو اب حکومت چلانے میں نئی مشکلات کا سامنا ہے اور ان میں سب سے بڑا چیلنج ہے معاشی عدم استحکام اور بڑھتی ہوئی مہنگائی۔حال ہی میں ختم ہونے والے آئی ایم ایف پروگرام کی کڑی شرائط خصوصاً ًپٹرولیم، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بڑے اضافے نے مہنگائی میں جو اضافہ کیا ہے اس سے مہنگائی کے شعلے کچھ ایسے بے قابو ہوئے ہیں کہ یہ اب ہر سمت پھیلتے دکھائی دیتے ہیں، جبکہ ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے ایک اور آئی ایم ایف پروگرام ناگزیر قرار دیا جا رہا ہے ۔

حکومت مخالف تحریک اور حکومتی صف بندی

مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو بنے ہوئے ابھی دو ماہ ہی ہوئے ہیں اور حکومت خود کو ملک کے حالات کے تناظر میں سنبھالنے کی کوشش کررہی ہے مگر اس کو مختلف محاذوں پر مختلف نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے ۔