پی ایس پی اور ایم کیو ایم کو متحد کرنے کی تجویز

تحریر : عابد حسین


رمضان المبارک کا آخری عشرہ جاری ہے۔ملک بھر کی ہزاروں مساجد میں مجموعی طور پر لاکھوں افراد اعتکاف میں بیٹھ چکے ہیں۔کورونا وائرس نے گزشتہ رمضان کی رونقوں کو بھی نقصان پہنچایا تھا اور اس بار بھی کورونا کی تیسری لہر گزشتہ دو لہروں کی نسبت زیادہ خطرناک ثابت ہورہی ہے۔گوکہ چند ماہ سے ویکسی نیشن کا عمل بھی جاری ہے تاہم وسائل کی کمی کی وجہ سے رفتار سست ہے اور کورونا کا مقابلہ کرنا مشکل ہورہا ہے ۔دوسری جانب ملکی اور صوبائی سطح پر سیاست اپنے اپنے مزاج کے مطابق جاری ہے۔کراچی میں سیاست کا طریقہ کار زیادہ تر مختلف ہی رہا ہے۔ حلقہ این اے 249کے ضمنی الیکشن نے پی ڈی ایم کی حکومت مخالف مہم میں مزید دراڑیں ڈال دی ہیں۔دونوں بڑی پارٹیوں نے ضمنی الیکشن میں کامیابی اور ناکامی کو تختہ مشق بنالیا ہے ۔

 کراچی کے قومی اسمبلی حلقہ 249کے ضمنی الیکشن کے سرکاری نتائج متنازع ہونے کی وجہ سے بعض امیدواروں کی درخواست پر روک لیے گئے ہیں۔ غیر سرکاری نتائج کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار قادر خان مندوخیل کو کامیاب قرار دیا جاچکا تھا۔ انہوں نے 16156 ووٹ حاصل کئے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے امیدوار مفتاح اسماعیل 15473 ووٹ لیکردوسرے نمبر پر رہے ۔ووٹوں میں فرق محض 683 کا ہے۔  2018ء کے عام انتخابات میں بھی اسی قسم کا فرق سامنے آیا تھا ۔جب تحریک انصاف کے فیصل وائوڈا نے مسلم لیگ (ن)کے مرکزی رہنما میاں شہباز شریف کو 723 ووٹوں کے فرق سے شکست دی تھی ۔ اس طرح اس حلقے میں ووٹوں کے کم فرق سے کامیابی اورناکامی کا رجحان برقرار رہاہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ تحریک انصاف کے امیدوار امجد اقبال آفریدی 8922 ووٹ لے کر پانچویں نمبر پر رہے ۔اس حلقے کے دیگر نتائج کے مطابق کالعدم ٹی ایل پی کے امیدوار نذیر احمد 11125 ووٹ حاصل کر کے تیسرے، پی ایس پی کے مصطفی کمال 9227 ووٹ لے کر چوتھے اور ایم کیو ایم پاکستان کے امیدوار حافظ محمد مرسلین 7511 ووٹ لے کر چھٹے نمبر پر رہے ۔ غیر حتمی نتیجے کا اعلان اگلے دن صبح چار بجے جاری ہونے سے امیدواروں میں شکوک و شبہات پیدا ہوئے ۔شکست خوردہ پارٹیوں کا موقف ہے کہ جب ٹرن آؤ ٹ اس قدر کم تھا اور زیادہ تر نتائج رات دس بجے تک آچکے تھے تو باقی ماندہ پولنگ اسٹیشنز کے نتائج میں اتنی دیر کیوں لگی؟

پاکستان تحریک انصاف کو انتخابی شکست کے باوجود اس الیکشن سے فائدہ یہ ہورہا ہے کہ پی ڈی ایم کی اہم جماعتوں پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی میں زبردست ’’میڈیا وار‘‘شروع ہوگئی ہے۔ اس میڈیا وار میں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی اور صوبائی قیادت شریک ہے۔کبھی ٹویٹ اور کبھی پریس کانفرنس کا سلسلہ جاری ہے۔چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹوزرداری نے کہا ہے کہ ’’این اے 249 میں شکست پر مسلم لیگ (ن) کا رد عمل انتہائی بچگانہ ہے اس سے ان کو ہی نقصان ہو گا،مریم نواز دھاندلی کے ثبوت پیش کریں، عمران خان کے گھر جانے کا وقت ہوگیا ہے، عوام نے سلیکٹڈ حکومت کو مسترد کر دیا ہے‘‘۔ انہوں نے کراچی کے شہریوں کا شکریہ اداکیا۔

بلاول بھٹو کے اس موقف کا جواب دیتے ہوئے سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حلیم عادل شیخ نے کہا ہے کہ ’’کراچی کے حلقہ 249 میں عجیب طرح کا الیکشن ہوا ہے جس پارٹی کا سارے فسانے میں ذکر ہی نہ تھا وہ جیت گئی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’بلاول زرداری نے کہا ہے کہ ’ شکریہ کراچی‘ ،بلاول کو شکریہ کراچی کا نہیں ،الیکشن کمیشن کا اداکرنا چاہیے تھا‘‘۔ مسلم لیگ (ن)کے رہنما و سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ’’ این اے 249 میں جو چوتھے نمبر پر بھی نہ تھے وہ کیسے جیت گئے؟ بلاول بھٹو کو چاہئے کہ وہ اپنے قد کے مطابق بات کریں۔ کراچی کا انتخاب ڈسکہ سے بھی زیادہ متنازع بن چکا ہے‘‘۔ شاہد خاقان عباسی کے الزام کا جواب دیتے ہوئے وزیر تعلیم و محنت سندھ و صدر پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن سعید غنی نے کہا ہے کہ اس وقت سیاسی پختگی کے حوالے سے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا سیاسی قد تمام سیاستدانوں سے بڑا ہے۔ ہم پر سلیکٹرز کے ذریعے حلقہ این اے 249 کا الیکشن جیتنے کا الزام لگانے والے بتائیں کہ کیا ڈسکہ، وزیر آباد اور نوشہرو کے انتخابات انہوں نے سلیکٹرز کے کاندھوں پر جیتا ہے؟

 این اے 249 میں ٹرن آؤٹ 20فیصد رہا۔مبصرین کے مطابق ایسے ٹرن آؤٹ کے ساتھ کامیابی پر مقبولیت کے دعوے یا دھاندلی کے الزامات کو سیاسی بلوغت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پی ایس پی کی شکست نے مصطفی کمال کی سیاست اور شخصیت کو نقصان پہنچایا ہے۔مصطفی کمال نے حال ہی میں یہ کہہ کر نیا پنڈورا باکس کھول دیا ہے کہ انہیں گورنر سندھ عمران اسماعیل کی جانب سے پی ٹی آئی میں شمولیت کی دعوت دی گئی تھی۔دوسری جانب گورنر سندھ نے ایسی کسی بھی پیشکش سے انکار کردیا ہے۔ابھی اس موضوع پر جواب آں غزل کا سلسلہ جاری ہے۔دیکھتے ہیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔فی الحال اطلاعات یہ ہیں کہ  بعض با اثر شخصیات نے دبئی میں مقیم سابق گورنر سندھ عشرت العباد سے رابطے شروع کردئیے ہیں۔کہا جارہا ہے کہ کراچی کی سیاست کے بگڑتے ہوئے توازن کو متوازن رکھنے کے لیے عشرت العباد کو واپس سیاست میں آنے کے لیے آمادہ کیا جارہا ہے۔ مختلف سیاسی آپشنز میں پی ایس پی اور ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں کو ملاکر مشترکہ قیادت سامنے لانے کی تجویز دی جارہی ہے۔سیاسی رابطوں کے حوالے سے ڈاکٹر فاروق ستار، انیس احمد ایڈووکیٹ، سابق وزیر صحت ڈاکٹر صغیر احمد، حیدر عباس رضوی،بابر غوری سمیت کچھ دیگر رہنما ؤں کے نام لیے جارہے ہیں۔دیکھتے ہیں کہ کیا نتیجہ نکلتا ہے ۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

آپسی میل ملاقات کے آداب

اسلام انسانی زندگی کی حفاظت اور اُس کی بقاء کا سب سے بڑا ضامن ہے وہ پوری انسانیت کو معاشرے میں ایک دوسرے کی جان ومال کی حفاظت اور حرمت کا پابند بناتا ہے اور جزا وسزا کے اُصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے بڑے متوازن انداز میں تنبیہ کرتا ہے: ’’اور جس جاندار کا مارنا اللہ نے حرام کیا ہے اسے قتل نہ کرنا مگر جائز طور پر (یعنی شریعت کے فتویٰ کی رُو سے) اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے (کہ ظالم قاتل سے بدلہ لے) تو اس کو چاہیے کہ قتل (کے قصاص) میں زیادتی نہ کرے کہ وہ منصورو فتح یاب ہے‘‘(سورۃ الاسراء:33)۔

شوال کی فضیلت

شوال کا شمار 4 حرمت والے مہینوں میں ہوتا ہے، جن کا ذکر قرآن پاک میں بھی آیا ہے

غزوہ اُحدمعرکہ حق و باطل

غزوہ بدر کی شکست کا بدلہ لینے کے لئے مشرکین مکہ نے مسلمانوں سے یہ جنگ لڑی غزوہ اُحد میں70 مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا، جن میں زیادہ تر انصار تھے

مسائل اور ان کا حل

غیر محرموں کی موجودگی میں نماز پڑھنے کی صورت میں عورت کا چہرہ ڈھانکنا سوال:عورت اگرگھرسے باہرنمازپڑھے توچہرہ ڈھانک کرپڑھ سکتی ہے؟ جواب:جی ہاں غیر محرموں کے سامنے نماز پڑھنے کی صورت میں چہرہ ڈھانک کرہی نماز پڑھیں۔(جامع ترمذی)

حکومت کے معاشی و سیاسی چیلنجز

الیکشن اور حکومت سازی میں مشکلات کو عبور کرنے کے بعد مسلم لیگ (ن) کو اب حکومت چلانے میں نئی مشکلات کا سامنا ہے اور ان میں سب سے بڑا چیلنج ہے معاشی عدم استحکام اور بڑھتی ہوئی مہنگائی۔حال ہی میں ختم ہونے والے آئی ایم ایف پروگرام کی کڑی شرائط خصوصاً ًپٹرولیم، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بڑے اضافے نے مہنگائی میں جو اضافہ کیا ہے اس سے مہنگائی کے شعلے کچھ ایسے بے قابو ہوئے ہیں کہ یہ اب ہر سمت پھیلتے دکھائی دیتے ہیں، جبکہ ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے ایک اور آئی ایم ایف پروگرام ناگزیر قرار دیا جا رہا ہے ۔

حکومت مخالف تحریک اور حکومتی صف بندی

مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو بنے ہوئے ابھی دو ماہ ہی ہوئے ہیں اور حکومت خود کو ملک کے حالات کے تناظر میں سنبھالنے کی کوشش کررہی ہے مگر اس کو مختلف محاذوں پر مختلف نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے ۔