انتخابی اصلاحات پر اختلافات کیوں ؟

تحریر : سلمان غنی


ملک میں آزادانہ اور شفاف انتخابات کیلئے انتخابی اصلاحات جیسی قومی ضرورت پر حکومت اور سیاسی قوتوں کے درمیان اختلافات نے سیاسی تنائو اور کشمکش کو بڑھا دیا ہے ۔ کسی جانب سے بھی اس حوالے سے کوئی ایسا سنجیدہ عمل سامنے نہیں آ رہا کہ کہا جا سکے کہ فلاں جماعت انتخابی عمل کی آزاد حیثیت اور دھاندلی کے الزامات کی روش سے پیچھا چھڑا کر آگے بڑھنے کی خواہاں ہے۔ آخر کیسے حکومت اور اپوزیشن ملک و قوم کو درپیش اس اہم اور سلگتے ہوئے معاملے کو مل بیٹھ کر افہام و تفہیم کے ذریعے حل کریں گی، ماضی میں تمام محاذ آرائی کے باوجود کسی نہ کسی سطح پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کوئی نہ کوئی رابطہ رہتا تھا، جس کے نتیجہ میں آل پارٹیز کانفرنس یا کسی اور سطح پر مشاورت کے ذریعے اہم معاملات کا حل نکال لیا جاتا تھا۔ جس سے اس مسئلے میں درپیش سیاسی رکاوٹیں دور ہو جاتی تھیں۔ خصوصاً آئینی ترامیم اور اہم قانون سازی کے عمل میں حکومت اور اپوزیشن مل بیٹھ کر معاملات آگے چلا لیتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس اتفاق رائے کو مک مکا کہہ کر ان کے خلاف الزام تراشی کیلئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

 تحریک انصاف کے برسراقتدار آنے کے بعد ضرورت اس امر کی تھی کہ حکومت اپنے ایجنڈے پر گامزن رہ کر حقیقی سیاسی تبدیلی کے ساتھ ملک کو درپیش مسائل کے حل پر کوئی موثر پیش رفت کر تی لیکن حالات و واقعات نے ظاہر کیا ہے کہ حکومت نے اپنے ایجنڈے میں سیاسی مخالفین کو احتساب کی بنیاد پر دیوار سے لگانے کی پالیسی اختیار کی اور خود وزیراعظم عمران خان اپنے بیانات کے ذریعہ سیاسی درجہ حرارت میں تیزی لانے کا باعث بنتے رہے ہیں ۔شائد ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو جب انہوں نے اپوزیشن کو چور ڈاکو قرار دیتے ہوئے این آر او نہ دینے کا عزم ظاہر نہ کیا ہو۔ یہی وجہ تھی کہ پہلے پہل تو اپوزیشن نے اس جارحانہ پالیسی کے جواب میں خاموشی اختیار کئے رکھی اور جب یہ محسوس کیا کہ حکومت معاشی چیلنجز سے نمٹ نہیں پا رہی اور اس کے نتیجہ میں مہنگائی‘ بے روزگاری‘ غربت اور بدانتظامی میں اضافہ ہو رہا ہے تو اپوزیشن نے کرپشن اور لوٹ مار کے الزامات پر مبنی مہم کے جواب میں اسے ناکام اور نااہل قرار دینا شروع کردیا۔ اب جب خود وزیراعظم عمران خان انتخابی اصلاحات جیسے اہم ایشوز پر مذاکرات کی بات کرتے نظر آ رہے ہیں اور خود وزرا کی کمیٹی اس حوالے سے سرگرم عمل ہے تو انہیں اپوزیشن کی جانب سے مثبت جواب نہیں مل پا رہا۔ اچھا ہوتا کہ وزیراعظم عمران خان انتخابی اصلاحات کے حوالہ سے مذاکرات کی پیشکش ٹویٹ کے ذریعہ کرنے کی بجائے ایوان میں آ کر کرتے ۔ اس صورت میں شاید اپوزیشن کو فرار کا موقع نہ ملتا۔ 

وزیراعظم عمران خان شفافیت کیلئے جس الیکٹرانک سسٹم کو لاگو کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں ،اس طریقے کو پیپلز پارٹی نے خطرناک اور مسلم لیگ( ن) نے یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا ہے کہ یہ نظام دنیا مستردکر چکی ہے ، کسی ایک فرد کی خواہش یا حکم پر ایسے کام نہیں ہوتے۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے حکومت کی الیکٹرانک ووٹنگ کی تجویز کے جواب میں انتخابی اصلاحات کیلئے تمام فریقین کی مشاورت کو لازمی قرار دیا ہے ۔ 

ایک جانب کراچی کے حلقہ این اے 249 کے انتخابی نتائج پر سیاسی قوتوں کے تحفظات اور دوسری جانب آزادانہ انتخابات کیلئے انتخابی اصلاحات کے عمل پر اختلاف یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اہل سیاست ملک و قوم ،جمہوری سسٹم اور سلگتے ایشوز پر متفق ہونے کیلئے تیار نہیں ۔ اس کا سیاسی فائدہ تو شائد کسی کو مل جائے ، مگر نقصان ملک کا ہی ہو گا۔ ایسی صورتحال میں ہمیشہ حکومتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ان کا سدباب کرے ۔ اپوزیشن تو حکومت کیلئے مسائل پیدا کرتی ہی رہتی ہے لیکن پہلی دفعہ دیکھنے میں آ رہا ہے 

کہ یہاں خود حکومت نے بھی اس حوالے سے کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ حکومت سے جو امیدیں اور توقعات قائم ہیں وہ اب دم توڑتی نظر آ رہی ہیں اور حکومت کو اس کا ذرا برابر احساس نہیں جس کا ثبوت خود وزیر اعظم عمران خان کے بیان سے لگایا جا سکتاہے ۔ انہوں نے کہا ہے کہ انہیں اپنی حکومت کی اڑھائی سالہ کارکردگی پر فخر ہے ۔ اس بیان پر اپوزیشن اور دیگر طبقات کے تحفظات تو اپنی جگہ ،خود حکومت کے حامی بھی مذاق اڑاتے نظر آرہے ہیں۔ 

دوسری طرف مسلم لیگ( ن) اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کے خلاف ہر محاذ پر ڈٹے نظر آ رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے کراچی کے حلقہ میں دوبارہ گنتی کے عمل کے فیصلہ سے بھی فاصلے مزید بڑھیں گے کیونکہ مسلم لیگ( ن) اپنی ہار کسی قیمت پر قبول کرنے کو تیار نہیں ۔پیپلز پارٹی انتخاب جیتنے کے باوجود اپنی جیت کا تاثر اس لئے قائم نہیں کر سکی کہ رات گئے تک انتخابی نتائج کے مطابق مسلم لیگ (ن) آگے تھی لیکن بعدازاں پیپلز پارٹی کی جیت کے اعلان سے صورتحال بدل گئی۔ تاہم اس کی دوبارہ گنتی آج بروز جمعرات ریٹرننگ آفس میں ہوگی۔ پیپلز پارٹی انتخاب جیت بھی جائے تو اس حلقہ کے نتائج ملکی سیاست پر غالب رہیں گے اور پیپلز پارٹی کوا س حوالے سے جوابدہ ہونا پڑے گا۔

 مسلم لیگ( ن) کے صدر شہباز شریف نے ’’دنیا‘‘ نیوز کو دئیے جانے والے ایک انٹرویو میں قومی مفاہمت کو مسائل کا حل قرار دیتے ہوئے اداروں سمیت سب کو مل کر ساتھ چلنے کی بات کی۔ اعلیٰ سطحی حکومتی سیاسی اور خصوصاً (ن) لیگ کے حلقوں میں یہ بات زیر بحث ہے اور کہا یہ جا رہا ہے کہ (ن) لیگ کی جانب سے مزاحمتی بیانیہ اختیار کرنے کے باوجود پارٹی کے صدر شہباز شریف جیل سے واپسی کے بعد بھی اپنے اسی موقف پر کاربند نظر آ رہے ہیں جو انتخابات سے پہلے ،انتخابات کے وقت اور انتخابات کے بعد تھا ۔ ان کے اس بیان کو نہایت سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے کہ قومی معیشت اورگورننس کے معاملات پر سیاست کی گنجائش نہیں ، اگر ملکی کشتی کو منجدھار سے نکال کر پار لگانا ہے تو سب کو اپنے اپنے مفادات سے بالاتر ہو کر سوچنا ہوگا۔ اطلاعات یہ ہیں کہ وہ فی الحال خاموشی سے ساری صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اپنی جماعت کے ذمہ داران اور اراکین قومی و صوبائی اسمبلی سے ملاقاتوں کے ذریعے ان کی آراء جمع کر رہے ہیں جن کی روشنی میں وہ مستقبل میں کسی بڑے سیاسی کردار کے خواہاں ہیں ،تاکہ واقعتاً قومی مسائل پر مفاہمت کے ذریعے آگے بڑھا جائے۔ مایوسی اور بے یقینی کی کیفیت کے حوالے سے وہ بڑے اعتماد سے یہ کہتے ہیں کہ مایوسی گناہ ہے اور اگر سیاسی قوتیں اور ریاستی ادارے مل کر صورتحال کو سنبھالا دینے کا فیصلہ کرلیں تو حالات سدھر سکتے ہیں۔ معاشی بدحالی کو خوشحالی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ کیا ایسا ممکن ہو سکتا ہے ؟یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

آپسی میل ملاقات کے آداب

اسلام انسانی زندگی کی حفاظت اور اُس کی بقاء کا سب سے بڑا ضامن ہے وہ پوری انسانیت کو معاشرے میں ایک دوسرے کی جان ومال کی حفاظت اور حرمت کا پابند بناتا ہے اور جزا وسزا کے اُصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے بڑے متوازن انداز میں تنبیہ کرتا ہے: ’’اور جس جاندار کا مارنا اللہ نے حرام کیا ہے اسے قتل نہ کرنا مگر جائز طور پر (یعنی شریعت کے فتویٰ کی رُو سے) اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے (کہ ظالم قاتل سے بدلہ لے) تو اس کو چاہیے کہ قتل (کے قصاص) میں زیادتی نہ کرے کہ وہ منصورو فتح یاب ہے‘‘(سورۃ الاسراء:33)۔

شوال کی فضیلت

شوال کا شمار 4 حرمت والے مہینوں میں ہوتا ہے، جن کا ذکر قرآن پاک میں بھی آیا ہے

غزوہ اُحدمعرکہ حق و باطل

غزوہ بدر کی شکست کا بدلہ لینے کے لئے مشرکین مکہ نے مسلمانوں سے یہ جنگ لڑی غزوہ اُحد میں70 مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا، جن میں زیادہ تر انصار تھے

مسائل اور ان کا حل

غیر محرموں کی موجودگی میں نماز پڑھنے کی صورت میں عورت کا چہرہ ڈھانکنا سوال:عورت اگرگھرسے باہرنمازپڑھے توچہرہ ڈھانک کرپڑھ سکتی ہے؟ جواب:جی ہاں غیر محرموں کے سامنے نماز پڑھنے کی صورت میں چہرہ ڈھانک کرہی نماز پڑھیں۔(جامع ترمذی)

حکومت کے معاشی و سیاسی چیلنجز

الیکشن اور حکومت سازی میں مشکلات کو عبور کرنے کے بعد مسلم لیگ (ن) کو اب حکومت چلانے میں نئی مشکلات کا سامنا ہے اور ان میں سب سے بڑا چیلنج ہے معاشی عدم استحکام اور بڑھتی ہوئی مہنگائی۔حال ہی میں ختم ہونے والے آئی ایم ایف پروگرام کی کڑی شرائط خصوصاً ًپٹرولیم، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بڑے اضافے نے مہنگائی میں جو اضافہ کیا ہے اس سے مہنگائی کے شعلے کچھ ایسے بے قابو ہوئے ہیں کہ یہ اب ہر سمت پھیلتے دکھائی دیتے ہیں، جبکہ ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے ایک اور آئی ایم ایف پروگرام ناگزیر قرار دیا جا رہا ہے ۔

حکومت مخالف تحریک اور حکومتی صف بندی

مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو بنے ہوئے ابھی دو ماہ ہی ہوئے ہیں اور حکومت خود کو ملک کے حالات کے تناظر میں سنبھالنے کی کوشش کررہی ہے مگر اس کو مختلف محاذوں پر مختلف نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے ۔