نیت کا پھل
بھائی آپ نے مجھے بلایا۔عبداللہ نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا ہاں آئو بیٹھو! حیدر نے ایک کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا جی بھائی ’’جب تم تنہا تھے ، تو تمہارا کھانا پینا تمہاری بھابی کے ذمے تھا ۔ کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ اس نے اپنی ذمہ داری میں کوئی کوتاہی تو نہیں کی۔ بھیا آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں انہوں نے کبھی مجھے اپنا دیور نہیں سمجھا ہمیشہ میرا خیال چھوٹے بھائیوں کی طرح رکھا ہے۔
انہوں نے اپنی ذمہ داری بڑی محبت اور خلوص سے نبھائی ہے۔ اب جب کہ ہم نے تمہاری شادی کر دی ہے تو تمہارے کھانے پینے کا کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ اس لیے اس بار جب گندم کی فصل تیار ہو جائے گی، تو تم اپنا حصہ لے کر الگ ہو جانا۔ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں عبد اللہ حیرت سے چلا اٹھا۔ میں وہی کہہ رہا ہوں ، جو مناسب ہے۔ اب تم ضد مت کرنا اور نہ ہی اس معاملے میں بحث کرنا۔ سمجھ لو یہ میرا فیصلہ ہے، جو تمہیں ماننا ہے۔ حیدر نے لگتا تھا سب کچھ پہلے ہی سے طے کر رکھا تھا۔ اس لیے تو اس نے عبد اللہ کو دو ٹوک فیصلہ سنا کر بات ختم کر دی۔عبد اللہ کو اپنے بھائی کی بات مجبوراً ماننا پڑی، کیوں کہ یہ اس کے بڑے بھائی کا حکم تھا۔ پورا علاقہ اس کے بھا ئی کی بات مانتا تھا۔ تو ہ کیسے نہ مانتا۔ حیدر نے اپنے چھوٹے بھائی کو آدھا گھر بانٹ دیا فصل تو پکنے پر ہی بانٹی جانا تھی، اس کے علاوہ جو کچھ بھی تھا۔انہوں نے آپس میں تقسیم کر لیا۔حیدر نے پوری کوشش کی کہ اس کے چھوٹے بھائی کے ساتھ زیادتی نہ ہو۔ اب دونوں فصل تیار ہونے کا انتظار کر نے لگے۔ کچھ عرصے بعد عبداللہ کی شادی کر دی گئی۔ اس کی بیوی زیادہ عقل مند نہیں تھی۔ کچھ لوگوں کی باتوں میں آکر وہ اکثر اپنے شوہر کو کہتی رہتی’’ ساری محنت آپ کرتے ہیں جب صلہ ملتا ہے، تو اس میں آپ کا بڑا بھائی، ان کی بیوی کی اور بچے بھی شامل ہو جاتے ہیں‘‘۔ عبد اللہ اسے سمجھاتا ۔ تم تو پاگل ہو میرا بھائی تو گائوں کا چودھری ہے وہ کیسے کھیتوں میں محنت کر سکتا ہے۔ پھر بھی انہیں کچھ خیال کرنا چاہیے۔ جتنا رزق اللہ تعالیٰ نے ہمارے حصے میں لکھ دیا ہے۔ وہ ہمیں مل رہا ہے۔ ہمیں اور کیا چاہیے۔ اس کی بیوی کی عقل میں یہ بات نہ آتی۔ اسے جب بھی موقع ملتا، وہ بات ضرور کرجاتی۔ ہوتے ہوتے یہ بات بڑے بھائی کے کانوں میں بھی پہنچ گئی۔اس نے سوچا کہ اس سے پہلے کہ حالات خراب ہو جائیں۔ مجھے چاہیے کہ میں اپنے چھوٹے بھائی کو اس کا حصہ دے کر الگ کر دوں یوں ایک دن حیدر نے عبداللہ سے بات کر کے اسے الگ کر دیا ۔ عبداللہ کی بیوی تو یہی چاہتی تھی۔ اس کی خواہش پوری ہو چکی تھی اس لیے اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا۔ فصل تیار ہو گئی۔ تو اسے کاٹ کر ایک بڑا کھلیان بنا دیا گیا۔ تھریشر لگی اور پھر انہوں نے گندم آپس میں بانٹ لی۔ حیدر نے عبد اللہ سے کہاکہ میں چاہتا ہوں کہ گندم رات کی تاریکی میں اٹھائی جائے تاکہ ہمارے الگ ہونے کا کسی کو بھی علم نہ ہو۔ یہ نہ ہو کہ لوگ کہیں کہ دوسروں کے جھگڑے باٹنے والے کا گھر خود پھوٹ کا شکار ہے۔ بھیا ! میں بھی یہی چاہتا ہوں کھیت گائوں سے کچھ فاصلے پر تھے اس لیے حیدر نے عبد اللہ سے کہا۔ ایسا کرتے ہیں کہ باری باری ہم میں سے ایک گندم گھر لے جائے گا۔ دوسرا یہاں پہرا دے گا۔ اب تم گندم لے جائو۔ عبد اللہ نے گندم کی بوری اٹھائی اور گھر کی راہ لی۔ جب وہ نظروں سے اوجھل ہوا تو حیدر دل میں سوچنے لگا میرا چھوٹا بھائی میری ایک عرصے سے خدمت کررہا ہے ۔یہ فصل بھی اس کی محنت کی وجہ سے اتنی اچھی ہوئی ہے۔ میری تو اس پورے علاقے میں عزت ہے، اگر میرا اناج کم پڑ گیا تو میں تو کسی سے بھی مانگ لوں گا۔ وہ مجھے انکار نہیں کر سکے گا۔ اگر خدانخواستہ میرے چھوٹے بھائی پر ایسا کوئی مشکل وقت آپڑا، تو وہ بے چارا کیا کرے گا۔ ایسا کرتا ہوں کہ اپنے حصے میں سے کچھ اناج اس کے حصے میں ملا دیتا ہوں تاکہ اسے کسی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ یہ سوچ کر اس نے اپنے حصے میں سے کچھ اناج اپنے بھائی کے اناج میں ملا دیا اتنے میں عبد اللہ واپس آگیا۔ حیدر نے کہا۔ اب تم یہاں بیٹھو! میں اپنا حصہ گھر پہنچا آئوں۔ حیدر نے بوری اٹھائی اور گھر کو چل دیا۔ اس کے جانے کے بعد عبد اللہ سوچنے لگا۔ میرا بھائی علاقے بھر کا چودھری ہے پھر اس کے بچے بھی ہیں اگر کسی وقت اس کا اناج کم پڑ گیا تو اسے کسی سے مانگنا پڑے گا۔ یوں میرے بڑے بھائی کی عزت خاک میں مل جائے گی۔ میرے ساتھ ایسا کچھ ہوا تو میں خود ہی کچھ نہ کچھ کر لوں گا۔ کیوں نہ میں اپنے حصے کے اناج میں سے کچھ اناج اپنے بڑے بھائی کے حصے میں ملا دوں ۔ حیدر واپس آیا، تو عبد اللہ نے بوری اٹھائی اور چل دیا۔ حیدر نے پھر اپنے اناج میں سے کچھ اناج اپنے چھوٹے بھائی کے حصے میں ملادیا۔ (جاری ہے)