عید الفطر
ایک مسلمان اللہ تعالیٰ کا صحیح شکراسی صورت میں بجالا سکتا ہے جبکہ وہ اس کے دئیے ہوئے رزق اور اس کی دی ہوئی نعمت ِہدایت پر بھی شکر ادا کرے جو قرآن کی شکل میں اس کو عطا ہوئی ہے
عید کی مبارک باد کے حقیقی مستحق وہ لوگ ہیں جنہوں نے رمضان المبارک میں روزے رکھے۔ قرآنِ مجید کی ہدایت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی فکر کی۔ اس کو پڑھا سمجھا۔ اس سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کی اور تقویٰ کی اس تربیت کافائدہ اٹھایا جو رمضان المبارک ایک مومن کو دیتا ہے۔ قرآنِ مجید میں روزوں کی دو ہی مصلحتیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ اس سے مسلمانوں میں تقویٰ پیدا ہو۔ ترجمہ ’’تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تاکہ تم میں تقویٰ پیدا ہو۔‘‘ دوسری یہ کہ مسلمان اس نعمت کا شکر ادا کریں جو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید نازل کرکے انہیں عطا کی ہے۔ ترجمہ ’’تاکہ تم اللہ کی تکبیر اور اس کا شکر ادا کرو۔ اس ہدایت پر جواس نے تمھیں دی۔‘‘
دنیا میں اللہ جل شانہ کی سب سے بڑی نعمت نوع انسانی پر اگر کوئی ہے تو وہ قرآنِ مجید کو نازل کرنا ہے۔ تمام نعمتوں سے بڑھ کر یہ نعمت ہے۔ اس لیے کہ رزق اور اس کے جتنے ذرائع ہیں مثلاً یہ ہوا اور یہ پانی اور یہ غلے اور اسی طرح سے معیشت کے جو ذرائع ہیں جن سے انسان اپنے لیے روزی کماتا ہے۔ مکان بناتا ہے، کپڑے فراہم کرتا ہے یہ ساری چیزیں بھی اگرچہ اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہی ہیں، لیکن یہ فضل و احسان اور اللہ تعالیٰ کی یہ نعمتیں محض انسان کے جسم کیلئے ہیں۔ قرآنِ مجید وہ نعمت ہے جو انسان کی روح کیلئے اس کے اخلاق کیلئے اور درحقیقت اس کی اصل انسانیت کیلئے نعمت عظمیٰ ہے۔ایک مسلمان اللہ تعالیٰ کا صحیح شکراسی صورت میں بجالا سکتا ہے جب کہ وہ اس کے دئیے ہوئے رزق پر بھی شکر ادا کرے اور اس کی دی ہوئی نعمت ہدایت پر بھی شکر ادا کرے جو قرآن کی شکل میں اس کو عطا ہوئی ہے۔ اس کا شکر ادا کرنے کی یہ صورت نہیں ہے کہ آپ بس زبان سے شکر ادا کریں اور کہیں کہ اللہ تیرا شکر کہ تو نے ہمیں قرآن دیا بلکہ اس کے شکر کی صحیح صورت یہ ہے کہ آپ قرآن کو سرچشمہ ہدایت سمجھیں دل سے اس کو رہنمائی کا اصل مرجع مانیں اور عملاً اس رہنمائی کا فائدہ اٹھائیں۔
قرآنِ مجید آپ کو اپنی زندگی کے متعلق ہدایت کرتا ہے کہ آپ کس طرح ایک پاکیزہ زندگی بسر کریں۔ وہ آپ کو ان چیزوں سے منع کرتا ہے جو آپ کی شخصیت کی نشوونما کیلئے نقصان دہ ہیں، وہ آپ کو وہ چیزیں بتاتا ہے جن پر آپ عمل کریں تو آپ کی شخصیت صحیح طور پر نشوونما پائے گی اور آپ ایک اچھے انسان بن سکیں گے۔ وہ آپ کی اجتماعی زندگی کے متعلق بھی مفصل ہدایات آپ کو دیتا ہے۔ آپ کی معاشرتی زندگی کیسی ہو۔ آپ کی زندگی کیسی ہو۔ آپ کے تمدن اور آپ کی تہذیب کا نقشہ کیاہو۔ آپ کی ریاست کن طریقوں پر چلے۔ آپ کا قانون کیا ہو۔ آپ کن طریقوں سے اپنی روزی حاصل کریں۔ کن راہوں میں اپنی کمائی ہوئی دولت کو خرچ کریں اور کن راہوں میں خرچ نہ کریں۔ آپ کا تعلق اپنے خدا کے ساتھ کیا ہو۔ آپ کاتعلق خود اپنے نفس کے ساتھ کیاہو۔ اپنی بیوی کے ساتھ، اپنی اولاد کے ساتھ اپنے والدین کے ساتھ، اپنے رشتہ داروں کے ساتھ، اپنے معاشرے کے افراد کے ساتھ اور دنیا کے تمام انسانوں کے ساتھ حتیٰ کہ حیوانات اور جمادات کے ساتھ اور خدا کی دی ہوئی تمام مختلف نعمتوں کے ساتھ آپ کا برتائو کیا ہونا چاہیے۔ زندگی کے اس سارے معاملات کیلئے قرآن آپ کو واضح ہدایات دیتا ہے۔ ایک مسلمان کا کام یہ ہے کہ اس کو اصل سرچشمہ وہدایات مانے، رہنمائی کیلئے اس کی طرف جوع کرے۔ ان احکام و ہدایات اور اصولوں کو صحیح تسلیم کرے جو وہ دے رہا ہے اور ان کیخلاف جو بھی چیز ہو، اسے رد کر دے خواہ کہیں سے آ رہی ہو۔ اگر کسی شخص نے اس رمضان المبارک کے زمانے میں قرآن کو اس نظر سے دیکھا اور سمجھا اور کوشش کی کہ اس کی تعلیم و ہدایات کو زیادہ سے زیادہ اپنی سیرت و کردار میں جذب کرے تو اس نے واقعی اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کا صحیح شکر ادا کیا ہے۔ وہ حقیقت میں اس پر مبارکباد کا مستحق ہے کہ رمضان المبارک کا ایک حق اس پر تھا جو اس نے ٹھیک ٹھیک اداکر دیا۔
رمضان المبارک کے روزوں کا دوسرا مقصد جس کیلئے وہ آپ پر فرض کیے گئے ہیں، یہ ہے کہ آپ کے اندر تقویٰ پیدا ہو۔ آپ اگر روزے کی حقیقت پر غور کریں توآپ معلوم ہو گا کہ تقویٰ پیدا کرنے کیلئے اس سے زیادہ کارگر ذریعہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ تقویٰ یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچے اور اس کی فرمانبرداری اختیار کرے۔ روزہ مسلسل ایک مہینے تک آپ کو اسی چیز کی مشق کراتاہے کہ جو چیزیں آپ کی زندگی میں عام طورپر حلال ہیں، وہ اللہ کے حکم سے روزے میں حرام رہتی ہیں۔ جب تک اللہ ہی کے حکم سے وہ حلال نہ ہو جائیں۔ پانی جیسی چیز جو طیب و حلال ہے، روزے میں جب اللہ حکم دیتا ہے کہ اب یہ تمہارے لیے حرام ہے تو آپ ایک قطرہ تک حلق سے نہیں اتار سکتے، خواہ پیاس سے آپ کا حلق چٹنحنے ہی کیوں نہ لگے۔ البتہ جب اللہ تعالیٰ پینے کی اجا زت دے دیتا ہے تو آپ اس کی طرف اس طرح لپکتے ہیں گویا کسی نے آپ کو باندھ رکھا تھا اور آپ ابھی کھولے گئے ہیں۔ ایک مہینے تک روزانہ باندھنے اور کھولنے کا عمل اس لیے کیا جاتاہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی پوری بندگی و اطاعت کیلئے تیارہو جائیں جس جس چیز سے وہ آپ کوروکتا ہے اس سے رکنے کی اور جس چیز کا وہ آپ کو حکم دیتا ہے اس کو بجا لانے کی آپ کو عادت ہو جائے۔ آپ اپنے نفس پراتنا قابو پا لیں کہ اپنے بے جا مطالبات اللہ کے قانون کے خلاف آپ سے نہ منوا سکے۔ یہ غرض ہے جس کیلئے روزے آپ پر فرض کیے گئے ہیں۔
اگر کسی شخص نے رمضان کے زمانے میں روزے کی اس کیفیت کواپنے اندر جذب کیا ہے تو وہ حقیقت میں مبارکباد کا مستحق ہے اور اس سے زیادہ مبارکباد کا مستحق وہ شخص ہے جو مہینے بھر کی اس تربیت کے بعد عید کی پہلی ساعت ہی میں اسے اپنے اندر سے اگل نہ پھینک دے بلکہ باقی 11 مہینے اس کے اثرات سے فائدہ اٹھاتا رہا۔ آپ غور کیجیے اگر کوئی شخص اچھی سے اچھی غذا کھائے جو انسان کیلئے نہایت قوت بخش ہو، مگر کھانے سے فارغ ہوتے ہی حلق میں انگلی ڈال کر اسے فوراً اگل دے تو اس غذا کا کوئی فائدہ اسے حاصل نہ ہو گا کیونکہ اس نے ہضم ہونے اور خون بنانے کا اسے موقع نہیں دیا۔ اس کے برعکس اگر کوئی شخص غذا کھا کر اسے ہضم کرے اور اس سے خون بن کر اس کے جسم میں دوڑے تو یہ کھانے کا اصل فائدہ ہے جو اس نے حاصل کیا۔ کم درجے کی مقوی غذا کھا کر اسے جزو بدن بنانا اس سے بہتر ہے کہ بہترین غذا کھانے کے بعد استفراغ کر دیا جائے۔ ایساہی معاملہ رمضان کے روزوں کا بھی ہے۔ ان کا حقیقی فائدہ آپ اس طرح اٹھا سکتے ہیں کہ ایک مہینے تک جو اخلاقی تربیت ان روزوں نے آپ کو دی ہے عید کے بعد آپ اس کو اپنے اندر سے نکال کر پھینک نہ دیں، بلکہ باقی11 مہینے اس کے اثرات کو اپنی زندگی میں کام کرنے کا موقع دیں۔ یہ فائدہ اگر کسی شخص نے اس رمضان سے حاصل کر لیا تو وہ واقعی پوری پوری مبارک باد کا مستحق ہے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت حاصل کر لی۔