شکر کا دن
عید کے دن نماز کی ادائیگی کیلئے عید گاہ کی طرف جانااور تمام مسلمانوں کا ایک امام کی اقتداء میں نماز ادا کرنا اسلام کی شان و شوکت کا اظہار ہے
تہواروں میں خوشی کیساتھ ساتھ اپنے جدا گانہ تشخص کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ مسلمانوں کی عید دیگر مذاہب و اقوام کے تہواروں سے بالکل مختلف حیثیت رکھتی ہے۔ اہل اسلام کی عید صرف خوشی نہیں بلکہ اللہ رب العزت کی عبادت، ذکر اور شکرمیں گزرتی ہے۔ یعنی یومِ عید خوشی و شادمانی کیساتھ ساتھ عبادت کا دن بھی ہے۔
اہلِ اسلام کی عید اپنے اندر اطاعت ِ خداوندی، اظہار شادمانی، اجتماعیت، رحم دلی کے احساسات، مال و دولت کی حرص سے اجتناب جیسے جذبات رکھتی ہے۔اس دن جو امور مشروع کیے گئے ہیں ان سے یہی ظاہر ہوتا ہے انسان غمی و مصیبت میں تو خدا کو یاد کرتا ہی ہے لیکن مسلمان اپنی خوشی کے لمحات میں بھی یاد الٰہی سے غافل نہیں رہتے۔صحیح بخاری میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم عید الفطر کے دن نماز عید سے قبل طاق عدد کھجوریں کھا کر عید گاہ تشریف لے جاتے ۔اس لیے عید گاہ جانے سے قبل کوئی میٹھی چیز کھا کر جانا مسنون ہے۔ گویا اس دن کمالِ اطاعت کا درس دیا جا رہا ہے کہ عید سے پہلے رمضانِ مقدس کے مہینے میں روزہ دار کا نہ کھانا بھی شریعت کے حکم کی تعمیل تھی اور آج کے دن نماز سے قبل کچھ کھا کر جانا، یہ بھی سنتِ نبویہؐ کی تعمیل ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے زیادہ اطاعت شعاری کیا ہو سکتی ہے؟ اس میں ایک پیغام یہ بھی ہے کہ مومن کا ہر عمل اللہ رب العزت کے احکامات اور آنحضرت ﷺ کی سنت کے مطابق ہونا چاہیے۔صحیح بخاری میں اہل نصاب کو عید گاہ جانے سے قبل صدقۂ فطر کی ادائیگی کی ترغیب دی گئی ہے۔
گویا یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ عید کی خوشیوں میں اپنے فقراء و مساکین بھائیوں سے غافل نہ رہو ،بلکہ تعاون اور رحمدلی کے جذبات لے کر انہیں بھی اپنی خوشیوں میں شامل کرو۔یوں باہمی تعلقات کے جذبات پیدا ہو کر معاشرے میں جو امیر و غریب کے درمیان دوری ہے وہ ختم ہو۔ صدقۂ فطر کی مشروعیت میں ایک اہم امر یہ بھی کارفرما ہے کہ انسان کو مال کی حرص و ہوس سے بچنا چاہیے اور یہ ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے کہ دولت خدا تعالیٰ کا عطیہ ہے،میری اپنی کاوش و کوشش کا کمال نہیں۔ جہاں باری تعالیٰ چاہیں گے وہیں خرچ کروں گا۔
عید کے دن صاف ستھرے کپڑے پہننے میں اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اظہار ہوتا ہے۔ جامع الترمذی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ بندے پر اس کی نعمت کا اثر نظر آئے۔تو بندہ صاف ستھرا یا نیا لباس پہن کر اس نعمت ِ مال کا اظہار و اقرار کرتا ہے۔ یہاں یہ بات ملحوظ رہنی چاہیے کہ حقیقی عید محض زیبائش و آرائش اور فاخرانہ لباس پہننے کا نام نہیں بلکہ عذاب آخرت سے بچ جانا ہی حقیقی عید ہے۔
عید کے دن عید نماز کی ادائیگی کیلئے عید گاہ کی طرف جانااور تمام مسلمانوں کا ایک امام کی اقتداء میں نماز ادا کرنا اسلام کی شان و شوکت کا اظہار ہے، امتِ مسلمہ عملاً یہ ثابت کر رہی ہوتی ہے کہ مسلمانوں میں امیر غریب، محتاج و غنی، گورا کالا تمام برابر ہیں۔ کسی کو دوسرے پر مال و عہدہ کی وجہ سے برتری نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی نظر میں سب مساوی ہیں۔نیز اس اجتماع میں آخرت کے دن کی یاد بھی ہوتی ہے۔ جب تمام انسان اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوں گے، جہاں ہر قوم و قبیلہ کے لوگ جمع ہوں گے۔ تو یہ اجتماع جہاں خوشیوں کی ساعات مہیا کرتا ہے وہاں یادِ آخرت سے بھی غافل نہیں ہونے دیتا۔
نماز عید کی ادائیگی دراصل روزوں کی ادائیگی پر شکرانہ ہے۔ مسلمانوں نے رمضان مقدس میں روزے رکھے، غیبت، چغلی، جھوٹ، بدکاری اور فحاشی جیسی برائیوں سے بچتے رہے۔ اعمال صالحہ کی برکات سے ان کی زندگی میں تبدیلی آئی کہ وہ گناہوں کو چھوڑ کرتقویٰ و پرہیزگاری کی زندگی بسر کرنے لگے۔اب اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو کر اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ نیکیوں کی توفیق دینے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے۔ فرمانِ قرآنی کے تحت اس دن نیکی کی توفیق پر جتنا شکر ادا کریں گے اتنی ہی توفیق زیادہ ملتی ہے قرآن مقدس میں فضول خرچی کرنے والوں کو شیطان کا بھائی کہا گیا ہے۔
ایک اچھے مسلمان کی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ عید کی حقیقی مسرتیں حاصل کرنے کیلئے شریعت مطہرہ کے بتائے گئے فرامین پر عمل کرے۔