عقل مندی

تحریر : طاہر جمیل ، ضلع لودھراں


ایک دفعہ کا ذکر ہے ، کسی جنگل میں ایک ظالم شیر رہتا تھا۔ ہر روز دو تین جانوروں کو ہلاک کر دیتا تھا۔جنگل کے سبھی جانور اس سے ڈرتے تھے ، اسی جنگل میں ایک چالاک بندر رہتا تھا جو دوسرے ساتھیوں کی طرح شیطان نہیں تھا۔ وہ اپنے کام سے کام رکھتا تھا۔ ایک دن وہ کسی کام سے جنگل میں پھر رہاتھا کہ شیر نے اس کے بچے اور کئی ساتھیوں کو مار ڈالا ۔

جب وہ واپس آیا توانہیں مراہوا دیکھ کر بہت رویا ۔ اسے جلد ہی معلوم ہو گیا کہ یہ حرکت شیر کی ہے۔ اس نے اپنے آپ سے وعدہ کیا کہ ان کی موت کا بدلہ لینے تک چین سے نہیں بیٹھے گا۔بندر نے سوچا کہ وہ اکیلا تو کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ ہاں! اگر دوسرے جانور بھی ساتھ مل جائیں تو سب شیر کو مار سکتے ہیں۔ لیکن پھر اسے خیال آیا کہ وہ سب تو شیر سے بہت ڈرتے ہیں،اس کا ساتھ بھلا کون دے گا ۔ 

یہ سوچ کر بندر ایک منصوبہ بناتا ہے ،وہ جنگل کے بہت سے جانوروں کو اکٹھا کرتا ہے ،اور ان سے کہتا ہے۔’’ دیکھو میرے بھائیو ں،اگر ہم نے جلد ہی شیر کا کچھ نہیں کیا تو وہ آہستہ آہستہ ہم سب کو مار دے گا۔ اگر ہمیں زندہ رہنا ہے تو ہمیں شیر کو مارنا ہوگا‘‘۔

تمام جانور شیر کو مارنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ اتنے میں بوڑھا ہرن پوچھتا ہے ’’شیر کو مارے گا کون؟‘‘ 

بندر کہتا ہے ، ’’ہم میں سے تو کوئی شیر کو مار نہیں سکتا۔ لیکن شیر کو شیر تو مار سکتا ہے ناں !‘‘

 تمام جانور حیران ہو کر پوچھتے ہیں ’’دوسرا شیر کہاں ہے؟ ‘‘

بندر کہتا ہے اب تم سب جائو ،صبح یہیں ملاقات ہوگی۔

کچھ ڈرپوک جانور شیر کے پاس پہنچ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’بندر آپ کو مروانے کے لئے کسی دوسرے شیر کو جنگل میں لانے والا ہے ،جو صبح آپ کو مار دے گا۔ شیر ہنس کر کہنے لگا: ’’صبح میں نہیں ،وہ بندر میرے ہاتھوں مرے گا۔ تم سب کو یہ خبر مجھ تک پہنچانے کا انعام ملے گا‘‘۔ جب صبح ہوتی ہے تو شیر اس جگہ پہنچتا ہے ۔ کچھ دور سے ایک شیر بیٹھا نظر آتاہے۔ ظالم شیر دوسرے شیر کو مارنے کے لئے اس کی طرف دوڑتا ہے۔ وہ اچانک ایک بہت گہری کھائی میں گر جاتا ہے ،اور وہاں پر لگی ہوئی نوکدار لکڑیاں کسی خنجر کی طرح اس کے جسم میں پیوست ہو جاتی ہیں ،جس سے شیر وہیں مر جاتا ہے۔ 

شیر کی ہلاکت کے بعد بندر شیر کی نقلی کھال اتار پھینکتا ہے، اورجانوروں کی جانب دیکھتے ہوئے کہتا ہے ’’ میں نے اپنا وعدہ پورا کر دیا‘‘۔ 

 سبھی جانور حیران بھی ہوتے ہیں اور شرمندہ بھی۔ پھر بندر ان سے کہتا ہے ، ’’میں جانتا تھا کہ تم سب شیر سے بہت ڈرتے ہو اور میں جو بھی تم سے کہوں گا تم وہ شیر کو بتا دو گے۔ اس لئے میں نے یہ چال چلی ۔میں نے پہلے ایک کھائی دیکھی ، اس میں نوکدار لکڑیاں رکھیں ،پھر تم سے جھوٹ بولا کہ اس جنگل میں ایک اور شیر آ گیا ہے تاکہ تم ظالم شیر کو بتائو اور وہ غصے میں آئے اوراسی عالم میں اس گڑھے میں جا گرے‘‘ ۔

یہ سن کر سبھی جانور خوشی سے جھومنے لگے۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

سالگرہ پر بچے چاہتے ہیں کچھ خاص!

بچوں کو اس کائنات کی سب سے خوبصورت اور معصوم مخلوق کہا جاتا ہے ۔سب کیلئے ہی اپنے بچے بہت خاص ہوتے ہیں اور بچوں کیلئے خاص ہوتا ہے ان کا جنم دن۔جب وہ سمجھتے ہیں کہ گھر والوں کو سب کام چھوڑ کر صرف ان کی تیاری پر دھیان دینا چاہئے۔ بچوں کی سالگرہ کیلئے سجاؤٹ میں آپ ان تمام چیزوں کی فہرست بنائیں جن میں آپ کے بچوں کی دلچسپی شامل ہو تاکہ وہ اپنے اس خوبصورت دن کو یادگار بنا سکیں۔

’’ویمپائرفیس لفٹ‘‘

کیا آپ کے چہرے پر بڑھاپے کے یہ تین آثار نظر آتے ہیں؟ (1)جلد کی رنگت کا خون کی گردش کی کمی کی وجہ سے سر مئی ہو جانا۔ (2) چہرے کی ساخت کا گرنا اور لٹک جانا، پٹھوں اور کولاجن کے کم ہوجانے کی وجہ سے۔(3) جلد کی بناوٹ کا کم ملائم ہوجانا۔اس کے نتیجے میں چہرہ تھکاہوا اور لٹکا ہوا نظر آتا ہے۔ چہرے کی زندگی سے بھرپور اور گلابی رنگت (جیسا کہ جلد کی ہر رنگت کے چھوٹے بچوں میں اور نوجوانی میں دیکھی جاتی ہے)مدھم ہو کر بے رونق سرمئی ہو جاتی ہے۔

آج کا پکوان

کشمش کا بونٹ پلائو:اجزاء:گوشت ایک کلو، چاول ایک کلو، گھی آدھا کلو، دار چینی، الائچی، لونگ، زیرہ سفید 10، 10گرام، پیاز250گرام، ادرک 50گرام، بونٹ کی دال آدھا کلو، دھنیا20گرام، مرچ سیاہ 10گرام، کشمش200گرام، نمک حسب ضرورت، زعفران 5گرام۔

عزیز حامد مدنی اک چراغ تہ داماں

عزیز حامد مدنی نے نہ صرف شاعری بلکہ تنقید، تبصرے اور تقاریر میں ان روایات کی پاسداری کی جو عہد جدید میں آئینے کی حیثیت رکھتے ہیں

اردوشعریات میں خیال بندی

معنی آفرینی اور نازک خیالی کی طرح خیال بندی کی بھی جامع و مانع تعریف ہماری شعریات میں شاید موجود نہیں ہے اور ان تینوں اصطلاحوں میں کوئی واضح امتیاز نہیں کیا گیا ہے۔ مثلاً آزاد، ناسخ کے کلام پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

علامہ محمداقبالؒ کا فکروفلسفہ :شاعر مشرق کے فکر اور فلسفے کو عالمی شہرت ملی، مسلمانوں کو بے حد متاثر کیا

ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبالؒ بیسویں صدی کی نابغہ روز گار شخصیت تھی۔ وہ ایک معروف شاعر، مفکر، فلسفی،مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کے اہم رہنما تھے۔اپنے فکر و فلسفہ اور سیاسی نظریات سے اقبالؒ نے برصغیر کے مسلمانوں کو بے حد متاثر کیا۔ ان کے فکر اور فلسفے کو عالمی شہرت ملی۔