اینڈریو کارنیگی ’’خیراتی سکول ‘‘سے ارب پتی بننے تک کی کہانی

تحریر : صہیب مرغوب


اینڈریو کارنیگی کا شمار دنیا کے مایہ ناز انسانوں میں ہوتا ہے، والد کھڈی پر کپڑا سوتا کرتے تھے اور ماں لوگوں کے لئے جوتے سیا کرتی تھی۔ اینڈریو کارنیگی کو پڑھانا تو دور کی بات تھی، دونوں کے پاس اتنے پیسے بھی نہ تھے کہ وہ پیٹ بھر کر کھاناکھا سکیں ۔ لیکن بچو! ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا۔ مفت کتابیں پڑھنے والا یہی بچہ بڑا کر 2500لائبریریوں اور 7600 گرجا گھروں سمیت کئی یونیورسٹیوں اور فلاحی اداروں کا مدد گار بنا ۔ ایک کمرے کے مکان میں پیدا ہونے والے کی موت 28ہزار ایکڑ پر واقع محل میں ہوئی۔ اس باہمت آدمی کی کہانی ہم آج آپ کو سنانے والے ہیں۔ آپ نے بھی اسی کی طرح محنت سے زندگی بنانی ہے۔

اینڈریو کارنیگی نے ولیم کارنیگی اور مارگریٹ ماریسن کے ہاں ڈنفرملائن شہر میں 25 نومبر 1835ء کو آنکھ کھولی۔نانااینڈریو کارینگی کے نام پر اس بچے کا نام بھی رکھ دیا گیا۔ ان کا مکان کیا تھا، پہلی منزل پر ایک کمرہ تھا۔ کھانا بھی وہیں پکتا تھا اور سوتے بھی اسی کمرے میں تھے۔ نچلا حصہ وہ ہمسائے کے ساتھ شیئر کیا کرتے تھے، ہمسایہ بھی جولاہا ہی تھا۔ میاں بیوی مل کام کرتے تب کہیں جا کر پیٹ کی آگ بجھتی۔ کارنیگی کو پڑھنے لکھنے کا شوق تھا اور یہ شوق اس میں ماموں جارج لائوڈر نے پیدا کیا تھا، وہ مقامی سیاسی لیڈر تھے اوراسے رابرٹ برنس (المعروف رابرٹ دی بروس) سمیت دیگر بہادرہیروز کی کتابیں لا کر دیا کرتے تھے،وہ بچے کی ذہانت اور ہمت سے بے حد متاثر تھے،ان کا بیٹا لائوڈر بھی کارنیگی کے ساتھ پلا بڑھا اور بعد میں کارنیگی کا بزنس پارٹنر بنا۔ 

اینڈریو کارنیگی نے خیراتی سکول میں تعلیم حاصل کی ۔جہاں تعلیم فری تھی ۔جو ایڈم رولینڈ نامی نیک آدمی نے غریب بچوں کی مفت تعلیم کی خاطر ہی یہ سکول بنا کر دیا تھا ۔ اینڈریو کارنیگی دن کو معمولی نوکریاں کیا کرتا تھا اور شام کوسکول کی کلاسیں لیتا۔  وہ مقامی لائبریری سے بھی کتابیں لے کر پڑھتا رہا ۔کارنیگی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’’میری زندگی بنانے میںان کتابوں کس قدر اہمیت ہے ،یہ میں ہی جانتا ہوں ۔میری ترقی میں کتابیں بہترین ساتھی ثابت ہوئی ہیں‘‘ ۔ 

ابھی کارنیگی بارہ سال کا ہی تھاکہ کھڈی پر کام کرتے کرتے والد ادھ موئے ہو جاتے ،لیکن دو وقت کی روٹی پھر بھی پوری نہ ہوتی۔اسی دوران سکاٹ لینڈ شدید قحط کی لپیٹ میں آگیا، بھوک اور مفلسی کے باعث لوگ دھڑا دھڑ موت کاتر نوالہ بننے لگے۔ باپ اپنے عزیز جارج لائوڈر سے کچھ رقم ادھارکر ستمبر 1848ء میں پنسلوینیا منتقل ہو گئے۔جہاں 1848ء میں باپ بیٹے کو آرچر کاٹن ملز میں 1.20 ڈالر فی ہفتہ کی نوکری مل گئی۔ دن میں بارہ گھنٹے کام کرنا پڑتا تھا۔ کھڈی پر دھاگہ ا لگاتے لگاتے کارنیگی کے ہاتھ شل ہو جاتے، لہٰذاجلد ہی دونوں نے نوکری چھوڑ دی۔ باپ نے پھر کپڑا سوتنے کا کام شروع کیالیکن یہ کاروبار پھر خسارے کا شکار ہو گیا۔

جلد ہی ایک او رمل مالک جان ہے (John Hay)نے کارنیگی کو دو ڈالر فی ہفتہ پر نوکر رکھ لیا۔اسے سوت کانتے والی فیکٹری کے بوائلر کو چالو رکھنا تھا۔ ننھے بچے کے لئے یہ بہت ہی مشکل کام تھا۔جلد ہی خدا حافظ کہہ دیا۔پھر ٹیلی گراف آفس میں ’’ پیغام رساں ‘‘ کی نوکری کر لی ، یہ اچھا کام تھا ،اسے گھر گھر جا کر پیغامات دینا پڑتے تھے ،ہر طرح کے لوگوں سے رابطہ قائم ہوا، یہ تجربہ زندگی میں بہت کام آیا۔بعد ازاں 1851ء میں ’’ٹیلی گراف آپریٹر‘‘ کی حیثیت سے ٹیلی گراف مشین بھی چلائی۔ اس نے ان تمام آلات کے کام کو بھی سمجھنے کی بھی کوشش کی۔1853ء میں پنسلوینیا ریلوے میں سپرنٹنڈنٹ کے معاون کی نوکری کر لی۔

ان تمام کاموں کو سمجھنے کے بعد اس نے اپنا کاروبار کیا، اور یہی اس کے عروج کا زمانہ ہے ۔ 1870 کی دہائی میں اس نے اپنے محسن لائوڈر کے بیٹے کی مالی مدد سے لوہے کا کاروبار شروع کیا جو ترقی کرتا چلا گیا۔اینڈریو کی خوبی یہ تھی کہ وہ ہر ورکر کی حوصلہ افزائی کیاکرتا تھا،ورکر بھی دل و جان سے کام کرتے تھے۔1901ء میں یہ بزنس ’’کارنیگی سٹیل کمپنی ‘‘ کا روپ دھار گیا۔ اب وہ دولت میں کھیل رہا تھا اس نے اپنے لئے 28ہزار ایکڑ پر محل تعمیر کروایا ۔لیکن وہ اپنے ملک اور شہریوں کو کبھی نہیں بھولا ،اس نے سٹیل مل جان مارگن نامی بینکار کو 48 کروڑ ڈالر میں بیچ دی ،ان میں سے 35کروڑ ڈالرفلاحی اداروں کے نام کر دیئے ۔اس نے نیو یارک شہر میں ’’مین ہال‘‘ کی تعمیر کے لئے11لاکھ ڈالر دیئے، کارنیگی انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اور کارنیگی میلان یونیورسٹی جیسے ادارے بنائے۔ لاکھوں افراد کی مدد کرنے والا یہ آدمی 83برس کی عمر میں 11 اگست1919ء کو خالی ہاتھ ا س دنیا سے چلا گیا۔

تو بچو! آپ کارنیگی کے بارے میں مزید پڑھیے، اور کسی بھی ناکامی پر مایوس ہونے کی بجائے ہمت سے کام لیتے رہیے، کیونکہ آپ نے بھی صرف آگے بڑھتے رہنا ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

عزیز حامد مدنی اک چراغ تہ داماں

عزیز حامد مدنی نے نہ صرف شاعری بلکہ تنقید، تبصرے اور تقاریر میں ان روایات کی پاسداری کی جو عہد جدید میں آئینے کی حیثیت رکھتے ہیں

اردوشعریات میں خیال بندی

معنی آفرینی اور نازک خیالی کی طرح خیال بندی کی بھی جامع و مانع تعریف ہماری شعریات میں شاید موجود نہیں ہے اور ان تینوں اصطلاحوں میں کوئی واضح امتیاز نہیں کیا گیا ہے۔ مثلاً آزاد، ناسخ کے کلام پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

علامہ محمداقبالؒ کا فکروفلسفہ :شاعر مشرق کے فکر اور فلسفے کو عالمی شہرت ملی، مسلمانوں کو بے حد متاثر کیا

ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبالؒ بیسویں صدی کی نابغہ روز گار شخصیت تھی۔ وہ ایک معروف شاعر، مفکر، فلسفی،مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کے اہم رہنما تھے۔اپنے فکر و فلسفہ اور سیاسی نظریات سے اقبالؒ نے برصغیر کے مسلمانوں کو بے حد متاثر کیا۔ ان کے فکر اور فلسفے کو عالمی شہرت ملی۔

جاوید منزل :حضرت علامہ اقبال ؒ نے ذاتی گھر کب اور کیسے بنایا؟

لاہور ایک طلسمی شہر ہے ۔اس کی کشش لوگوں کو ُدور ُدور سے کھینچ کر یہاں لےآ تی ہے۔یہاں بڑے بڑے عظیم لوگوں نے اپنا کریئر کا آغاز کیا اور اوجِ کمال کوپہنچے۔ انہی شخصیات میں حضرت علامہ اقبال ؒ بھی ہیں۔جو ایک بار لاہور آئے پھر لاہور سے جدا نہ ہوئے یہاں تک کہ ان کی آخری آرام گاہ بھی یہاں بادشاہی مسجد کے باہر بنی، جہاںکسی زمانے میں درختوں کے نیچے چارپائی ڈال کر گرمیوں میں آرام کیا کرتے تھے۔

چمگاڈر کی کہانی

یہ کہانی ایک چمگادڑ کی ہے۔ دراصل ایک مرتبہ باز، شیر کا شکار کیا ہوا گوشت لے اڑتا ہے۔ بس اسی بات پر پرند اور چرند کے درمیان جنگ شروع ہوجاتی ہے اور جنگ کے دوران چالاک چمگادڑ اس گروہ میں شامل ہوجاتی جو جیت رہا ہوتا ہے۔ آخر میں چمگادڑ کا کیا حال ہوتا ہے آئیں آپ کو بتاتے ہیں۔

عادل حکمران

پیارے بچو! ایران کا ایک منصف مزاج بادشاہ نوشیرواں گزرا ہے۔ اس نے ایک محل بنوانا چاہا۔ جس کیلئے زمین کی ضرورت تھی اور اس زمین پر ایک غریب بڑھیا کی جھونپڑی بنی ہوئی تھی۔