فنڈز استعمال کرنے میں ناکامی
عام طور پر بجٹ کو اعدادوشمار کا گورکھ دھندا کہا جاتا ہے۔یہ عام آدمی کی سمجھ سے باہر ہوتا ہے۔ سیاسی پنڈت اسے اپنے اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔حکمران جماعت سے متعلق لوگ بجٹ خواہ کیسا بھی ہو ،واہ واہ ،واہ واہ...کرتے نہیں تھکتے جبکہ حزب اختلاف کی جانب سے اس پرشدید تنقید فرض سمجھی جاتی ہے۔ صوبائی وزیر اطلاعات سندھ سید ناصر حسین شاہ کے مطابق اس سال بھی وفاقی حکومت ، سندھ کے ساتھ بہت زیادہ زیادتی کر رہی ہے۔ سندھ کے حصے میں سے 84ارب روپے کم دیئے گئے ہیں جس کی وجہ سے صوبے کے ترقیاتی منصوبے مکمل نہیں ہو رہے ۔ پورے صوبے خصوصاً کراچی کے ترقیاتی منصوبے التواء کا شکار ہیں۔
ایک جانب حکومت سندھ وفاق سے رقم نہ ملنے کا رونا رورہی ہے تو دوسری جانب انکشاف کیا جارہا ہے کہ سندھ حکومت سالانہ ترقیاتی پروگرام مکمل نہیں کر سکی ۔صوبائی محکمے سالانہ ترقیاتی پروگرام کی مد میں 67ارب روپے خرچ کرنے میں ناکام رہے۔ رواں مالی سال میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے رکھے گئے ایک کھرب 70 ارب روپے میں سے ایک کھرب تین ارب خرچ ہو سکے۔ محکمہ تعلیم سندھ 21 ارب روپے میں سے 8 ارب 13 کروڑ روپے خرچ کر سکا ہے۔ حالانکہ کراچی میں سکولوں کے بچوں کا ڈراپ آئوٹ ریٹ 21فیصد تک ہے۔مضمون میں شامل چارٹ کے مطابق سب سے کم ڈراپ آئوٹ کراچی کے علاوہ حیدر آباد میں ہے، لیکن وہاں بھی اس کا تناسب 33فیصد کے قریب ہے۔ اس کے بعد دادو کے بعض سکولوں میں ڈراپ آئوٹ ریٹ 41 فیصد تک اور ٹھٹھہ کے بعض علاقوں میں 70فیصد سے بھی زائد ہے۔مضمون میں شامل نقشے میں زرد ، برائون اور سرخ رنگ زیادہ ڈراپ آئوٹ ریٹ کی عکاسی کر رہے ہیں ۔ پھر بھی فنڈز خرچ نہ کرنا حیران کن ہے۔
محکمہ زراعت 2 ارب 28 کروڑ روپے میں سے 75 کروڑ روپے خرچ کر سکا ہے۔ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز محکمہ کے ترقیاتی منصوبوں کیلئے تین ارب36 کروڑ روپے میں سے صرف ایک ارب روپے خرچ ہوئے ۔ محکمہ لائیواسٹاک کے ترقیاتی منصوبوں کیلئے ایک ارب 9 روڑ روپے مختص کئے گئے جن میں سے صرف 22 کروڑ 30 لاکھ روپے خرچ ہوئے ۔ محکمہ بلدیات سندھ کے منصوبوں کیلئے 12 ارب 17 کروڑ روپے مختص کئے گئے تھے جن میں سے اب تک صرف 6 ارب 46 کروڑ روپے خرچ ہو سکے ہیں ۔ محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کیلئے 11 ارب 59 کروڑ روپے ترقیاتی پروگراموں کیلئے مختص کئے گئے تھے لیکن اب تک صرف پانچ ارب 22 کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں ۔ محکمہ ٹرانسپورٹ سندھ کے منصوبوں کیلئے 6 ارب 46کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے جس میں سے اب تک صرف 43 کروڑ 90 لاکھ روپے خرچ ہوئے ہیں۔ جبکہ محکمہ ورکس اینڈ سروسز 15 ارب 57 کروڑ روپے میں سے 13 ارب روپے خرچ کر سکا ہے۔یہ فنڈز کیوں خرچ نہ ہو سکے؟ اس بارے میں جب متعلقہ محکموں سے رابطہ قائم کیا گیا تو اکثر کا کہنا تھا کہ ’’کورونا کی وجہ سے نقل و حمل محدود ہونے کے باعث منصوبے مکمل نہ ہوسکے ‘‘۔
سندھ میں آئندہ مالی سال کے بجٹ کا حجم 1300ارب سے زائد ہوسکتا ہے جبکہ سندھ حکومت نے مالی سال 21-2020 کے لیے 1241 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا تھا۔ نئے بجٹ میں سندھ کے ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 10 تا15 فیصداضافے کے علاوہ مزدور کی کم ازکم اجرت میں بھی اضافے کی توقع ہے۔ سندھ کابینہ نے پنشن ریفارمز اسکیم کی منظوری دے دی ہے جس سے تقریباً 894 ارب روپے کی بچت کا امکان ہے ۔ وزیراعلیٰ سندھ نے محکمہ خزانہ کے انچارج وزیر کی حیثیت سے کابینہ کو بتایا کہ گزشتہ 11 مہینوں (جولائی تا مئی) کے دوران سندھ ریونیو بورڈ نے108.6 ارب روپے جمع کئے جبکہ 20-2019کے اسی عرصے میں 91ارب روپے جمع کیے گئے تھے ۔وزیراعلیٰ مرادعلی شاہ نے آئندہ مالی سال کے مجوزہ وفاقی بجٹ پر اعتراض اٹھاتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کو اب تک کئی خطوط ارسال کر دیے ہیں جن میں کہاگیا ہے کہ وفاق کے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام میں سندھ کے منصوبے نظر انداز کردئیے گئے ہیں ۔ آئندہ مالی سال کے پی ایس ڈی پی میں این ایچ اے کی پنجاب کے لئے22 اورسندھ کو صرف دو اسکیمیں شامل کی گئی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ حکومت سندھ کی سفارش کردہ سڑکوں، فراہمی و نکاسی آب کی بیشتراسکیموں کو مسترد کردیاگیا ہے۔ وفاقی ترقیاتی پروگرام میں سندھ کو خیبر پختونخوا سے بھی کم منصوبے دیے گئے ہیں ۔سیہون۔ جامشورو شاہراہ کیلئے سندھ نے وفاق کو 2017ء میں 50 فیصد رقم دی تھی مگر چارسال گزرنے کے باوجود این ایچ اے نے سیہون ۔جامشورو شاہراہ مکمل نہیں کی ۔ وزیراعلیٰ نے فراہمی آب کے میگا منصوبے کے فور سے متعلق خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ یہ منصوبہ بروقت مکمل نہیں ہوسکے گا۔ وفاقی وزارت خزانہ نے پنجاب کو 86ہزار605ملین کے اور سندھ کو 4ہزار 808 ملین روپے کے منصوبے دیے ہیں ۔
وزیر اعلیٰ کی جانب سے وزیر اعظم کو لکھے گئے خط پر اپوزیشن لیڈر سندھ اسمبلی حلیم عادل شیخ نے رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعظم کے اعلان کے بعدسندھ کے اٹھارہ اضلاع میں وفاقی فنڈ سے ترقیاتی کام جاری ہیں۔ کراچی میں وفاقی حکومت کے فور، گرین لائن اور برساتی نالوں سمیت انفرااسٹرکچر کے منصوبوں پر کام کررہی ہے۔ سندھ حکومت نے کے فور منصوبے سمیت کئی منصوبوں میں کرپشن کی ہے ۔ اس وقت سارے منصوبے وفاقی حکومت مکمل کروا رہی ہے، ملتان سکھر موٹروے کیلئے وفاق نے 98 ارب ، سکھر سے حیدرآباد موٹر وے کیلئے 200 ارب کی خطیر رقم رکھی گئی ہے۔ پیپلزپارٹی کی سابقہ وفاقی حکومت نے سندھ میں موٹرویز کی تعمیر کیلئے ایک پیسہ بھی نہیں رکھا تھا۔