اگلا وفاقی میزانیہ :وعدے نہیں ۔۔۔۔دال روٹی چاہئے!

تحریر : سلمان غنی


نئے وفاقی بجٹ کی آمد آمد ہے ،معاشی ترجیحات کے بارے میں سرکاری دعوئوں کے مطابق آنے والے بجٹ میں عام آدمی پر دبائو نہیں ڈالا جائے گا،انہیں ریلیف مہیا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ایک و قت تھا ،جب بجٹ کی آمد کے ساتھ ہی تمام اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی پیشی کے حوالے سے لوگوں میں دلچسپی پیدا ہوتی تھی ،سرکاری ملازمین کی زیادہ دلچسپی اپنی تنخواہوں میں اضافہ سے متعلق ہوتی تھی۔ لیکن اب طویل عرصے سے بجٹ میں لوگوں کی دلچسپی کم ہوتی جا رہی ہے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ قیمتوں میں اضافہ سارا سال ہی جاری رہتا ہے۔ پریشان کن پہلو یہ ہے کہ گرانی کی روک تھام میں حکومتی کردار کہیں نظر نہیں آتا ۔ قیمتوں میں من مانے اضافے نے مہنگائی کو بے قابو کردیا ہے۔ جس گروپ کا جب جی چاہتا ہے اپنی مصنوعات کی قیمتیں بڑھا دیتا ہے اورانتظامیہ چپ رہتی ہے، ا ب تک کسی کو پکڑا نہیں گیا۔ منافع خوری کچھ اور لوگ کرتے ہیں اور بدنامی حکومت کی ہوتی ہے۔

ویسے تو ہر حکومت ہی اپنے بجٹ کو عوام دوست اور کسان دوست قرار دیتی ہے مگر عملاً یہ سب کچھ صرف نعروں اور دعوئوں تک محدود رہتاہے ۔کیونکہ جتنی مہنگائی ان تین سالوں میں دیکھنے میں آئی ہے اتنی ماضی میں کبھی نہیں ہوئی ، اس کی مثال نہیں ملتی۔ خصوصاً تنخواہ دار طبقے کی زندگی تو اجیرن ہو چکی ہے ۔ وزیراعظم عمران خان یہ کہتے رہے ہیں کہ ’’مجھے مہنگائی کا احساس ہے اور عوام کا خون پسینہ چوسنے والے مافیاز کو معاف نہیں کروں گا‘‘لیکن جب بھی وزیراعظم عمران خان نے قیمتوں میں اضافے کا نوٹس لیا،اس کے بعد بھی قیمتوں میں مزید اضافہ ہی ہوا بلکہ ان کے وزراء یا مشیروں کے بیانات کے بعد بھی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں ،مرغی کا گوشت اس کی ایک مثال ہے۔ اس سے حکومت کی ساکھ متاثر ہوئی اورگراں فروشوں پر اس کی گرفت کمزور ہونے کا تاثر ابھرا۔اس ساری صورتحال میں اپوزیشن نے اپنی توجہ عوامی مسائل کرانے کی بجائے حکومت گرانے پر مرکوز رہی ۔ 

ایک اچھا بجٹ وہی ہوتا ہے جس میں ترقیاتی فنڈز زیادہ سے زیادہ رکھے جائیں تاکہ لوگوں کو سہولتوں کی فراہمی ممکن بنائی جا سکے اور روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا ہوں ۔مگر عملاً ترقیاتی بجٹ میں اضافے کی بجائے کمی ہوئی ہے ۔ اس کمی سے پنجاب متاثر ہوا ہے۔ بجٹ میں ترجیح جنوبی پنجاب کو دی گئی مگر سنٹرل پنجاب کے بارے میں یہ تاثر رہا کہ شایدیہ حکومتی ترجیح میں شامل نہیں ہے۔

 اگر موجودہ صوبائی حکومت کے ترقیاتی فنڈز کے استعمال کا جائزہ لیا جائے تو اب تک کی رپورٹس سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ یہ حکومت ترقیاتی فنڈز کا بڑا حصہ خرچ ہی نہیں کر سکی۔ اگر سابقہ حکومت اور موجودہ پنجاب حکومت کے ترقیاتی اخراجات کاجائزہ لیا جائے تو اس کے استعمال کی صلاحیت میں نمایاں فرق نظر آتا ہے۔ سابقہ  حکومت پر خواہ موجودہ حکمران کرپشن اور لوٹ مار کے الزامات عائد کریں مگر حقائق یہی ہیں کہ سابقہ دور میں 80 فیصد بجٹ پنجاب میں خرچ ہوا اور ان کے پراجیکٹس نظر آتے رہے مگر موجودہ حکومت کے دور میں ترقیاتی فنڈز بھی خاطر خواہ نہ مل سکے اور جو ملے وہ خرچ نہ ہو سکے۔ اس بناء پر یہ تاثر عام ہوا ہے کہ شاید پنجاب اور خصوصاً سنٹرل پنجاب کو مسلم لیگ ن سے وابستگی کی سزا دی گئی ہے۔

 جہاں تک اس بات کا ذکر ہے کہ وفاقی حکومت نے جی ڈی پی میں ترقی تقریباً چار فیصد دکھائی ہے اس پر بھی اعتراضات کئے جا رہے ہیں۔ یہ تناسب آئی ایم ایف نے 1.5 فیصد ، عالمی بینک نے 1.7فیصد اور سٹیٹ بینک نے 2.6 فیصد بتا یا ہے ۔

 وزیر خزانہ شوکت ترین کے دعوئوں کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ حکومت کو احساس ہے کہ اب عام آدمی پر بوجھ نہ ڈالا جائے۔ خصوصاً وزیر خزانہ شوکت ترین کا یہ کہنا خوش آئند بات ہے کہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے آئی ایم ایف کا دبائو قبول نہیں کیا جائے گا ۔ اس لئے حکومت کا نیا میزانیہ خود اس کیلئے بڑا امتحان ہو گا۔سابقہ دو بجٹ الگ الگ وزیر خزانہ نے بنائے۔ پہلا بجٹ اسد عمر پھر ڈاکٹر حفیظ شیخ اور اب یہ بجٹ شوکت ترین کی قیادت میں بنایا جا رہا ہے۔ شوکت ترین بنیادی طور پر بینکار ہیں اور اعدادوشمار کے ماہر ہیں۔انہوں نے مشکل صورتحال میں چیلنج قبول کیا ہے یہی ان کا امتحان ہے۔ وزیر خزانہ بننے سے پہلے انہوں نے آئی ایم ایف سے کئے جانے والے سمجھوتہ کے بارے میں کہا تھا کہ اس سے ملکی معیشت بیٹھ گئی تھی  لہٰذا اب یہ بجٹ ان کا امتحان ہوگا۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف حکومت کی معاشی پالیسیوں کے بڑے ناقد ہیں، یہ وہی اپوزیشن لیڈر ہیں جنہوں نے اسمبلیوں کے قیام کے فوری بعد حکومت کو چارٹر آف اکانومی طے کرنے کیلئے تعاون کی پیشکش کی تھی جو کہ حکومت نے اپنے احتسابی ایجنڈے کی نذر کر دی اسی لئے اپوزیشن بھی بجٹ کے موقع پر تیاریوں میں لگ رہی ہے۔ شہباز شریف اور ان کی جماعت نے پری بجٹ سیمینار کے ذریعے معاشی صورتحال کے جائزہ کے علاوہ متعدد تجاویز بھی تیار کی ہیں۔اسی لئے کہا جا رہا ہے کہ ایوان میں حکومت کو ٹف ٹائم دیا جائے گا۔ دوسری بڑی اپوزیشن پارٹی کے لیڈر بلاول بھٹو زرداری بھی بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال اور خصوصاً سندھ کو خاطر خواہ فنڈز نہ ملنے پر ناراض ہیں۔ انہوں نے اپنے اراکین اسمبلی کو بجٹ سیشن میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کا ساتھ دینے کا اعلان کر کے یہ پیغام دے دیا ہے کہ اپوزیشن بجٹ سیشن میں مل جل کر حکومت کو ٹف ٹائم دے گی ،کیونکہ افراط زر اور مہنگائی سے سب ہی متاثر ہوئے ہیں۔ پھر عوام کو روزگار ملا نہ سماجی تحفظ ۔ زراعت اور صنعت بھی بری طرح متاثر ہوئے ، کاروباری طبقہ الگ پریشان رہا ۔ حکومت اپنی خراب کارکردگی کی ایک بڑی وجہ کورونا کو قرار دیتی ہوئے ہر خرابی کی ذمہ داری سابقہ حکومتوں پر ڈال رہی ہے ۔لیکن وہ ضمنی انتخابات کے نتائج بھی دیکھ لے، جن میں اسے شکست ہوئی کیونکہ عوام نے حکمرانوں کا بیانیہ تسلیم نہیں کیا۔ اب اگلے دو برسوں میں ان کے پاس غلطی کی گنجائش نہیں۔ ایک جانب اس کا سیاسی مقابلہ اپوزیشن جماعتوں سے ہے تو دوسری جانب 22کروڑ مسائل زدہ عوام ہیں۔ حکومت ان کے زخموں پر مرہم رکھتی نظر نہیں آ رہی اور خود حکومت کے اندر بھی بعض رہنمائوں کے کچھ تحفظات ہیں ۔ بجٹ کی منظوری کیلئے ووٹ دینے کی یقین دہانیوں کے باوجود سانپ اور سیڑھی کا کھیل جاری ہے لہٰذا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ حکومت کیلئے سب ٹھیک ہے ۔ سیاسی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ حکومتیں کارکردگی کی بنیاد پر چلتی ہیں۔ نعروں، دعوئوں اور وعدوں پر نہیں ۔ لوگوں کو اعدادوشمار سے نہیں، دال روٹی اور روزگار کی فراہمی سے ہی مطمئن کیا جا سکتا ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

چمگاڈر کی کہانی

یہ کہانی ایک چمگادڑ کی ہے۔ دراصل ایک مرتبہ باز، شیر کا شکار کیا ہوا گوشت لے اڑتا ہے۔ بس اسی بات پر پرند اور چرند کے درمیان جنگ شروع ہوجاتی ہے اور جنگ کے دوران چالاک چمگادڑ اس گروہ میں شامل ہوجاتی جو جیت رہا ہوتا ہے۔ آخر میں چمگادڑ کا کیا حال ہوتا ہے آئیں آپ کو بتاتے ہیں۔

عادل حکمران

پیارے بچو! ایران کا ایک منصف مزاج بادشاہ نوشیرواں گزرا ہے۔ اس نے ایک محل بنوانا چاہا۔ جس کیلئے زمین کی ضرورت تھی اور اس زمین پر ایک غریب بڑھیا کی جھونپڑی بنی ہوئی تھی۔

ذرامسکرائیے

پپو روزانہ اپنے میتھ کے ٹیچر کو فون کرتا ٹیچر کی بیوی: تمہیں کتنی دفعہ کہا ہے کہ انہوں نے سکول چھوڑ دیا ہے تم پھر بھی روزانہ فون کرتے ہو۔پپو: یہ بار بار سن کر اچھا لگتا ہے۔٭٭٭

خر بوزے

گول مٹول سے ہیں خربوزے شہد سے میٹھے ہیں خربوزے کتنے اچھے ہیں خربوزےبڑے مزے کے ہیں خربوزےبچو! پیارے ہیں خربوزے

پہیلیاں

جنت میں جانے کا حیلہ دنیا میں وہ ایک وسیلہ جس کو جنت کی خواہش ہومت بھولے اس کے قدموں کو(ماں)

اقوال زریں

٭…علم وہ خزانہ ہے جس کا ذخیرہ بڑھتا ہی جاتا ہے وقت گزرنے سے اس کو کوئی نقصا ن نہیں پہنچتا۔ ٭…سب سے بڑی دولت عقل اور سب سے بڑی مفلسی بے وقوفی ہے۔٭…بوڑھے آدمی کا مشورہ جوان کی قوت بازو سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔