سیرت مصطفٰیﷺ۔۔۔فلاح انسانیت کا ذریعہ

تحریر : آغا سید حامد علی شاہ موسوی


فخرِ موجودات، باعثِ تخلیقِ کائنات، ہادیٔ برحق ،خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دنیا میں آمد اللہ کا انسانیت پر اتنا بڑا احسان عظیم ہے ،جس کا احاطہ بڑے بڑے دانشور نکتہ داں مفکر نہیں کرسکتے ۔ذات مصطفی ؐ ہی خدا کی پہچان کا واحد ذریعہ ہے نبی کریم ﷺکی آمد کی پیش گوئیاں ہر نبی کرتا رہا ،خدا والوں کو بھی صدیوں سے آپؐ کا انتظار تھاصاحبانِ عرفان آپؐ کے کمالات معجزات نشانیاں جانتے تھے اور آپؐ کے شدت سے منتظر تھے ۔جہاں انتظار کرنے والوں نے آپؐ کی مدح سرائی کی وہاں جمالِ مصطفی ؐ کا مشاہدہ کرنے والوں نے بھی آپؐ کے مقام کو دنیا کے سامنے آشکار کیا۔انہی ہستیوں میں ایک سب سے نمایاں نام حضرت ابو طالبؓ کا بھی ہے ۔جنہوں نے نہ صرف مقام مصطفیؐ کو دنیا کے سامنے آشکار کیا بلکہ ذات مصطفیؐ کے تحفظ کیلئے ہر مصیبت و الم کو برداشت کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ام المومنین حضرت خدیجہؓ کے بعد حضرت ابو طالبؓ دنیا میں نہ رہے تو حضرت جبرئیلؑ نے آکر اللہ کے نبی ؐ کو وحی کی کہ اب مکہ چھوڑ دیں اس شہر میں آپکا پاسبان و مربی کوئی نہیں رہا ۔یوں حضرت ابو طالب ؓکے بعد مکہ چھوڑنا پڑ ااور ہجرت پر مجبور ہو نا پڑا۔

حضرت ابو طالب ؓنے صرف ذات مصطفیؐ کا تحفظ ہی نہیں کیا بلکہ اپنے کلام کے ذریعے دنیا کو مقام مصطفی ؐ سے روشناس بھی کرایا۔ تمام مؤرخ محقق اور محدث اس امر پر متفق ہیں کہ شان رسالتؐ میں اولین نعت ختمی مرتبتؐ کے کفیل حضرت ابو طالب ؓنے ہی ارشاد فرمائی جن میں عرب کی فصاحت و بلاغت کی جھلک موجود ہے وہاں عشق مصطفیؐ کا ٹھاٹھیں مارتا سمند ر نظر آتا ہے ۔حضرت ابو طالب ؓکے دستیاب کلام کا ہر لفظ  ہر سطر مقام مصطفی ؐ کی تبلیغ کرتا نظر آتا ہے۔ حضرت ابو طالب ؓکا شمار فصحائے عرب میں ہوتا تھاشعر کہنے پر قدرت وقوت ِتامہ رکھتے تھے چونکہ وہ اپنے بھتیجے حضرت محمد مصطفی ؐ سے بے پناہ محبت رکھتے تھے ۔اسی محبت میں جو کلام ارشاد فرمایا وہ عربی ادب کا عظیم سرمایہ ہے۔ آپؓؓ کا کلام عرب معاشرے اور اوائل اسلام کے رسوم و رواج کا بھی عکاس ہے ۔ دیوانِ ابو طالبؓ کا قدیم ترین نسخہ احمد الکردی کا مرتب کردہ سمجھا جاتا ہے ۔مقام مصطفی ؐ کے جو پہلو آپ ؓ نے روشناس کرائے وہ کسی اور سے ممکن نہ ہو سکا صحیح بخاری میں عمروبن علی، ابوقتیبہ، عبدالرحمن بن عبداللہ دینار اپنے والد سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا میں نے ابن عمرؓ کو حضرت ابوطالبؓ  کے اشعارپڑھتے ہوئے سنا ۔

 حضرت ابوطالب ؓنے شانِ مصطفوی ؐ میں ایک قصیدہ ارشاد فرمایا جو سیرتِ ابن ہشام سمیت تمام عربی تاریخ کی کتب میں مرقوم ہے وہ یہ ہے کہ (ترجمہ )’’حضرت محمد ؐ ایسے خوش جمال شخص ہیں جن کی برکت سے ابر پانی برساتا ہے جو یتیمو ں کیلئے جائے پناہ اور بیوائوں کا پردہ ہیں۔بنی ہاشم میں جسے ہلاکت کا خطرہ ہو وہ ا ن کے پاس پناہ لیتے ہیں ۔وہ انکے پاس رہ کر خدا کی رحمت اور نعمت پاتے ہیں۔ وہ ایک ایسی میزان عدالت ہیں کہ جو ایک جَوبرابر بھی اِدھر اُدھرنہیں کرتے اور درست کاموں کا ایسا وزن کرنے والے ہیں کہ جن کے وزن کرنے میں کسی شک وشبہ کا خوف نہیں ہے ۔وہ ایک بزرگ انسان ہیں جن کا شمار سب سے مرتبے والے سرداروں میں ہوتا ہے۔وہ اس خاندان بنو ہاشم سے ہیں جو بڑائیوں کے میدان میں برتری کے مالک ہیں ۔میں نے ان سے ہمیشہ محبت رکھی وہ ہمیشہ ہی اپنے محبت کرنیوالوں کی سربلندی کا موجب بنے ہیں۔وہ ہمارے درمیان اس قدر شرافت اور اعتبار کے مالک ہیں کہ ہر تجاوز کرنے والے کی شرافت اور رتبہ ان سے کم تر ہے۔‘‘

تاریخ کی کتب میں حضرت ابوطالب ؓکے بہت سے اشعار ملتے ہیں کچھ اشعار درج ذیل ہیں(ترجمہ )’’اے میرے بھتیجے خدا کی قسم جب تک میں خاک میں نہ سو جائوں ور لحد کو اپنا بستر نہ بنا لوں دشمن ہرگز ہرگز آپؐ تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ لہٰذا کسی چیز سے نہ ڈرواور اپنی ذمہ داری اور ماموریت کا ابلاغ کرو، بشارت دو اور آنکھوں کو ٹھنڈا کرو۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ آپؐ کا ہدف و مقصد صرف خیرخواہی ہے، آپؐ اپنی دعوت میں امین اور صحیح ہیں۔‘‘

اور یہ اشعار بھی حضرت ابو طالب ؓ نے ہی ارشاد فرمائے ہیں کہ (ترجمہ )’’اے قریش! کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ ہم نے حضرت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مانند خدا کا پیغمبر اور رسول پایا جن کے آنے کی پیش گوئی پہلی آسمانی کتابوں میں لکھی ہوئی ہے۔خدا کے بندے ان سے خاص لگاؤ رکھتے ہیں اور جسے خدا وند متعال نے اپنی محبت کیلئے مخصوص کرلیا ہو اس شخص سے یہ لگاؤ بے جا نہیں ہے۔‘‘ابن ابی الحدید نے حضرت ابوطالبؓ کے کافی اشعار نقل کئے ہیں ان اشعار کا مجموعہ ابن شہر آشوب نے ’’متشابہات القرآن‘‘ میں3 ہزار اشعار پر مشتمل بتایا ہے ۔کفار مکہ کے مقابلے میں تحفظ رسالت ؐ کیلئے کوہ گراں بن جانے والے حضرت ابو طالبؓ نے مختلف مواقع پر اپنے جذبات و احساسات کو انتہائی خوبصورت الفاظ میں بیان کرکے نہ صرف اوائل ِاسلام  کے عرب معاشرے کی معتبر و مستند تاریخ مرتب کر ڈالی بلکہ عربی زبان و ادب کوبھی گرانقدر سرمایہ عطا کیا۔حضرت ابو طالبؓ کے کلام کے حوالے سے امیر المومنین حضرت علی ؓنے ارشاد فرمایا ’’اخلاق وادب کے ساتھ ذوقِ شعریت کی تسکین حاصل کرنا ہو تو دیوان ِابو طالبؓ کا مطالعہ کریں۔‘‘حضرت ابو طالب ؓکے کلام کاہر ہر لفظ عشق رسالت ؐ کا عکاس ہے ۔( ترجمہ ) ’’اے محمدؐ!میرے نورِنظر،اگر کسی خطرے یا مصیبت وپریشانی کا اندیشہ ہو تو ہر شخص کو اپنی جان آپؐ کے قدموں پر نثار کر دینی چاہیے۔ پروردگار عالم ہی تمام انسانوں کا فرمانروا ہے جسکا کوئی شریک نہیں۔وہی نعمتیں عطا کرنے والا ، دنیا کو ایجاد کرنیوالااور دوبارہ زندگی عطا کرنیوالا ہے ۔ آسمان وزمین کے درمیان جو مخلوقات بھی زندگی گزار رہی ہیں اور جو آسمانوں پر ہیں وہ بھی اُسی کے حقیقی بندے ہیں۔یقینا خداوند عالم نے حضرت محمدﷺ کو منزلت وکرامت سے سرفراز فرمایا ہے کہ خداوند عالم کی تمام مخلوقات میں سب سے بلند مرتبہ حضور اکرم ؐکی ذات گرامی کا ہے ۔ خدا نے اُن کے جلال وقدر کیلئے اُن کے نام کو بھی اپنے نام ہی سے مشتق کیا چنانچہ و ہ صاحب عرش محمود ہیں اور یہ محمد ؐہیں۔‘‘

 جب قریش نے پیغمبر اکرمؐ اور مسلمانوں کا  شدید اقتصادی،سماجی اور سیاسی بائیکاٹ کیا اور اپنے ہر قسم کے روابط منقطع کرلیے تو آنحضرت ؐ کے واحد حامی اور مدافع حضرت ابو طالبؓ بنی ہاشم کو ایک درے کی طرف لے گئے جو مکہ کے پہاڑوں کے درمیان تھا اور شعب ابوطالبؓ کے نام سے مشہور تھا اور وہاں سکونت اختیار کرلی، آپؓ کی فداکاری کا یہ عالم تھا کہ ہر رات پیغمبر اکرمﷺ کو ان کے بستر سے اٹھاتے اور اپنے فرزندوں کو ان کی جگہ پر سلادیتے تاکہ اگر کوئی نقصان ہو تو میری اولاد کو ہو ہادی ٔبرحق نبی کریم ؐ کو کوئی گزند نہ پہنچے ۔ غرضیکہ حضرت ابو طالب ؓ نے ہر محاذ پر کفّارِ مکہ اور جہلائے عرب کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔جب فخر موجودات حضرت محمد مصطفی ؐ کا نکاح حضرت خدیجہؓ کے ساتھ طے پایا اورمقررہ تاریخ پر قبیلہ مضر کے رؤسا،مکہ کے شرفاء و امراء اکٹھے ہوئے توحضرت خدیجہ ؓکی طرف سے عمروبن اسد وکیل بنے اورسرکار دوعالم ﷺکی وکالت رئیس بطحاحضرت ابوطالب ؓنے فرمائی۔حضور اکرمؐ کے نکاح کا خطبہ زبانِ ابوطالب ؓسے ادا ہوا۔

 ہر مصطفوی پر لازم ہے کہ وہ مقام مصطفی ؐ کودنیا کے سامنے اجاگر کرے ،تعلیمات مصطفوی ؐکی روح دنیا کے سامنے پیش کی جائے اگر ہر کلمہ گو مقام مصطفی ؐ کا ادراک کرتے ہو ئے دامان مصطفی کوؐ تھام لے تو کوئی شے اسے ضرر نہیں پہنچاسکتی ، امت مسلمہ کو اپنے افعال، کردارو افکار کو سیرت مصطفی ؐ کے ساتھ وابستہ کرنا ہو گا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

حکومتی اعتماد میں اضافے کے دلائل

21 اپریل کے ضمنی انتخابات کے بعد حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ 8 فروری کے انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکومت قائم ہو ئی تو شہباز شریف کو ووٹ دینے والوں کو شبہ تھا کہ یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گی کیونکہ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے ، معیشت سنبھالنا انتہائی کٹھن ہو گا، بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت حکومت کیلئے مسلسل درد سر رہے گی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ تو دیا مگر اہم ترین اتحادی جماعت وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنی۔

ضمنی انتخابات کا معرکہ(ن) لیگ نے سر کر لیا

ضمنی انتخابات کے حوالے سے عمومی رائے یہ رہی ہے کہ ان میں حکمران جماعت کو فائدہ ملتا ہے مگر 2018ء کے بعد اس تاثر کو دھچکا لگا ۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے ووٹرز میں تحریک پیدا کرکے انہیں پولنگ سٹیشنز تک لے آتی تھیں،مگر حالیہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ضمنی انتخابات کا معرکہ سر کر لیا۔

سندھ میں امن وامان کی دعائیں!

سندھ میں پیپلز پارٹی میدان پر میدان مار رہی ہے۔ قومی اسمبلی کی سیٹ پر آصفہ بھٹو زرداری کا بلامقابلہ انتخاب ہوا اور اب قمبر شہداد کوٹ سے ضمنی الیکشن میں خورشید احمد نے کامیابی حاصل کرلی ہے۔

خیبرپختونخوا میں مایوسی!

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپورہر طرف سے مسائل میں گھرے نظر آرہے ہیں ۔ایک طرف صوبے کو مالی بحران درپیش ہے تو دوسری جانب دہشت گردی پھیلتی نظرآرہی ہے ۔ اب انہیں کابینہ کے اندر بھی مسائل کا سامنا کرناپڑرہاہے۔

60نکاتی اصلاحاتی ایجنڈا،عمل کا منتظر!

بلوچستان کی مخلوط حکومت کی 14 رکنی کابینہ نے بالآخر حلف اٹھا لیا ہے۔ کابینہ میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے چھ،چھ جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے دو ارکان نے بحیثیت وزراحلف اٹھایا۔

بلدیاتی اداروں کو بجٹ جاری

آزاد جموں وکشمیر حکومت نے بالآخر بلدیاتی اداروں کے نمائندوں کو بجٹ جاری کر دیا۔ 32 سال کے بعد آزاد جموں وکشمیر کے بلدیاتی نمائندوں کی نشاندہی پر وزارت محکمہ مقامی حکومت و دیہی ترقی مختلف ترقیاتی سکیموں کیلئے پیسے جاری کرے گی تاکہ نچلی سطح پر لوگ اپنی نگرانی میں تعمیر و ترقی کا کام کرائے جا سکیں۔