بجٹ میں خواتین کو کیا ملا؟

تحریر : صہیب مرغوب


دنیا کے کئی دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی خواتین امور مملکت چلانے میں اپنا حصہ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔سیاست میں انکی نمائندگی کبھی کم اور کبھی زیادہ ہوتی رہتی ہے۔اس اہم شعبے میں فعال اور متحرک کردار ادا کرنے میں ناکامی کے اثرات دیگر شعبوں پر بھی پڑتے ہیں ۔سماجی ،انتظامی اور معاشی شعبوں میں پیچھے رہ جانے کی بڑی وجہ بھی یہی ہے۔جینڈر گیپ رپورٹ کے مطابق ’’ کام کرنے کی عمر 6کروڑ خواتین میں سے صرف 22.6فیصد خواتین برسرروزگار ہیں‘‘۔ یعنی ہر پانچ میں سے صرف ایک خاتون کو روزگار دستیاب ہے۔اسی لئے تو جینڈر گیپ سے متعلق 156 ممالک کی فہرست میں ہم 153ویں نمبر پر ہیں۔ اس رینکنگ میں جنگ زدہ افغانستان ،یمن اور عراق ہم سے نیچے ہیں۔یہ رینکنگ تعلیم، صحت ، مجموعی عمر اور زندگی کے تحفظ کو مد نظر رکھتے ہوئے بنائی جاتی ہے یعنی ہم اپنی خواتین اور بچیوں کے جان و مال کے تحفظ سمیت دیگر بنیادی تقاضے بھی پورے نہیں کر سکے ۔

  انتظامی شعبے میں خواتین کتنا پیچھے ہیں؟۔اسکے اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ اگر وفاقی بیورو کریسی میں خواتین کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوتی تو بھی قابل برداشت تھی ، ان کی شرکت اس سے بھی کم ہے۔ وفاق میں دو طرح کی ملازمتیں ہیں اول تو گریڈ ایک سو گریڈ 22تک کے سرکاری ملازمین ہیں۔ ور دوسرے وہ ملازمین ہیں جنہیں سرکار کے زیر انتظام چلنے والے نیم خود مختار اداروں یا کارپوریشنوں میں رکھا جاتا ہے ۔

اس کی تفصیل میں جائیں تو پتہ چلے گا کہ وفاقی حکومت نے 2019ء میں سرکاری اداروں سے منسلک ملازمین کی رپورٹس زیادہ تفصیلات کے ساتھ مرتب کی ہیں۔ان کے مطابق وفاقی سول ملازمین کی منظور شدہ تعداد 6.63لاکھ تھی ۔ 81.48سیٹیں خالی تھیں یعنی بھرتیاں ہونا تھیں جبکہ 5.82لاکھ ملازمین کام کر رہے تھے ۔ان میں سے ہماری بہنوں اور بیٹیوں کا حصہ مزید 13فیصد کمی کے بعد 5 2786 رہ گیا تھا ۔  سول سیکریٹریٹ کے کل 13347ملازمین میں سے خواتین 901تھیں۔ خواتین کو زیادہ تر نمائندگی ’’ماتحت عملے‘‘ میں ملی ہے۔ ملحقہ اداروں اور ماتحت عملے کی تعداد 559843ہے، جن میں سے خواتین کی تعداد 26 ہزار 500ہے۔حالانکہ اسٹیبلشمینٹ ڈویژن کے 22مئی 2007ء کو جاری کردہ نوٹیفیکیشن کے مطابق ’’تمام وفاقی سرکاری ملازمتوں میں خواتین کو 10فیصد نمائندگی دینا ضروری ہے۔ اس کوٹے کا اطلاق میرٹ پر بھرتی ہونے والی خواتین پرنہیں ہو گا‘‘ یعنی میرٹ پر دس فیصد سے زیادہ بھی منتخب ہوسکتی ہیں اور ہوتی رہی ہیں۔حالانکہ10 فیصد کوٹے کو پیش نظر رکھیں تو خواتین کی کم سے کم تعدادبھی 58ہزار بنتی ہے۔یعنی وفاقی ملازمتوں میں خواتین کو قانون کے مطابق نمائندگی نہیں ملی۔

جہاں تک نیم خود مختار اداروں اورکارپوریشنوں کا تعلق ہے تو 2019ء مرتب کی گئی آخری رپورٹ کے مطابق کل چار لاکھ ملازمین میں سے خواتین کی تعداد 20 ہزار 503تھی۔یوں وفاقی حکومت کے ماتحت کل دس لاکھ ملازمین کام کر رہے ہیں جن میں 28ہزار خواتین شامل تھیں۔یہ تعداد ان کے مقررکردہ دس فیصد کوٹے سے کم ہے۔ہو سکتا ہے کہ اب تک اس میں اضافہ (یا کمی )ہو چکی ہو لیکن اس میں کوئی شک  نہیں کہ گزشتہ تین عشروں میں سے چند ہی برسوں میں خواتین کو کوٹے کے مطابق نمائندگی ملی ہے ورنہ زیادہ تر برسوں میں ان کی تعدا دکم ہوتی رہی ہے۔

نئے وفاقی بجٹ میں ہراسمنٹ کا بھی ذکر ہے، کام کی جگہ پر ہراسمنٹ کی روک تھام کیلئے 7.3 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں جن کی مدد سے ’’وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسمنٹ ‘‘ خواتین کو تحفظ مہیا کریں گی ۔ حکومت نے بجٹ میں یہ بھی کہا ہے کہ ’’ اب تومردوں نے بھی ہراسمنٹ کی روک تھام کیلئے حکومت سے رجوع کیا ہے‘‘ ، یہ ہراسمنٹ کی بالکل نئی شکل سامنے آئی ہے۔

نئے بجٹ میں ویمن ہوسٹل اور ڈے کیئر سنٹر کیلئے86لاکھ روپے رکھے گئے ہیں، جہاں 28بچوں اور 47خواتین کو سہولت مل سکے گی۔ جبکہ ’’نیشنل کمیشن آن سٹیٹس آف ویمن‘‘ اور نیشنل کمیشن آف ہیومن رائٹس ایکٹ 2012ء کے تحت بھی خواتین کے حقوق کی نگرانی اور تحفظ کا عمل جاری رکھاجائے گا۔’’خاندان کے تحفظ اور بحالی ‘‘کے پروگرام کے تحت اگلے مالی سال میں 17ہزار خواتین میں شعور کی بیداری کیلئے کام کیا جائے گا۔جبکہ مذکورہ پروگرام کے تحت خواتین کے حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق 400کیسوں کی شنوائی ہو گی۔نیشنل کمیشن آن سٹیٹس آف ویمن کے تحت منعقدہ ’’جرگہ‘‘ اگلے مالی سال میں 125 فیصلے کرے گا۔  بجٹ میں صنفی برابری کے لئے احساس پروگرام کے تحت خواتین کو کئی لاکھ قرضے دیئے گئے ہیں۔نئے بجٹ میں خواتین کے وراثتی حقوق کے تحفظ کا پلان بھی مرتب کیا گیا ہے۔ بجٹ دستاویزات کے مطابق ’’دی انفورسمنٹ آف ویمن پراپرٹی رائٹس ایکٹ مجریہ 2020ء‘‘ کی عمل داری کا بھی بندوبست کیا جائے گا۔ خواتین کو جائیداد وں میں ان کے وراثتی حقوق دلوانے کیلئے رواں مالی سال کے بجٹ میں 22لاکھ روپے رکھے گئے تھے اب یہ رقم بڑھا کر  23 لاکھ 10ہزار روپے کر دی گئی ہے۔بجٹ میں کہا گیا ہے کہ جائیداد سے متعلق ہر کیس کو 60دنوں میں حل کر دیا جائیگا، اگر ایسا ہو گیا تو یہ بہت بڑی تبدیلی ہو گی۔

 ایک بڑی برطانوی این جی اوکے تعاون سے ’’ویمن انکم جنریشن اینڈ سیلف ریلائنس ‘‘ (WINGS) کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا جا رہا ہے۔ جس پر عمل درآمد کیلئے برطانوی این جی او 3.60کروڑ پائونڈ دے گی۔پروگرام کے ذریعے 63ہزار انتہائی غریب خواتین کو ان کے پیروں پر کھڑ اکرنے والے بزنسز شروع کرنے کے لئے فنڈز دیئے جائیں گے۔ یوں انہیں مستقل طور پرخود کفیل بنا دیا جائے گا۔ 

بجٹ تجاویز میں خواتین کی تعلیمی سرگرمیوں میں اضافے کے اقدامات کئے گئے ہیں۔ہائر ایجو کیشن کمیشن کے بجٹ میں 9منصوبے شامل کئے گئے ہیں۔فاطمہ جناح ؒ یونیورسٹی کاایک منصوبہ2015 ء سے چل رہا ہے، اسے 22کروڑ روپے سے اگلے مالی سال میں مکمل کرنے کی تجویز ہے۔ باغ (آزاد کشمیر) میں ویمن یونیورسٹی کے قیام کیلئے 20کروڑروپے، فیصل آباد میں گورنمنٹ کالج ویمن یونیورسٹی کیمپس کے قیام کیلئے 20کروڑ روپے،بنوں میں یونیورسٹی کیمپس کی تعمیر کیلئے 17.50کروڑ روپے اور مینگورہ (سوات) میں ویمن یونیورسٹی کو مکمل کرنے کیلئے 5 کروڑ روپے خرچ کئے جائیں گے۔اس کے علاوہ بہاولپور ، سیالکوٹ ،مردان ، مالاکنڈ ،کالاشاہ کاکو، پشاور، ملتان اور پشین اور خضدارمیں خواتین کی اعلیٰ تعلیم کیلئے مجموعی طور پر اربوں روپے خرچ کئے جائیں گے۔ان کے علاوہ ڈیرہ اسمعٰیل خان میں خواتین کے لئے ’’بزنس سکلز ڈویلپمنٹ سنٹر ‘‘ بنے گاتاکہ وہ بزنس کے شعبوں میں زیادہ فعال کردار اداکرسکیں ۔

سٹیٹ بینک آف پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ بھی صنفی برابری کیلئے کام کر رہا ہے، اس نے بھی جینڈر گیپ میں کمی کیلئے ’’بینکاری برائے صنفی برابری‘‘ کے حوالے سے ایک بینکاری پالیسی مرتب کر رہا ہے، جس پر سٹیک ہولڈرز سے مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔ جس کے تحت بینکوں کو پابند کیاجائے گا کہ وہ بھی قرضوں کی فراہمی کو ’’جینڈر گیپ کی عینک ‘‘ سے دیکھتے ہوئے خواتین کی بہبود کاخیال رکھیں اور ان کے کیسز کو نظرانداز کرنے سے گریز کریں۔اگر اس پر عمل ہو گیا توخواتین کو مہنگے قرضوں سے نجات مل جائے گی۔ سٹیٹ بینک نے کاروباری خواتین کیلئے قرضوں کی حد پہلے ہی 15لاکھ سے بڑھا کر 50لاکھ کر دی ہے۔ 

 ایک وقت تھا جب خواتین کے اکائونٹس برائے نام ہوا کرتے تھے لیکن 20جون 2020ء میں 4.59کروڑ اکائونٹس میں سے 1.17کروڑ اکائونٹس خواتین کے تھے ۔

 جہاں تک قوانین کا تعلق ہے تو رواں مال سال میں خواتین کی بہبود اور تحفظ کی خاطر تین اہم قوانین جاری کئے گئے ہیں، جن میں ’’زینب الرٹ بل مجریہ 2020ء ‘‘سب سے اہم ہے۔خیبر پختونخوا میں خواتہین پر تشدد کی روک تھام اور اسلام آباد میں خصوصی افراد(بشمول خواتین) کی بہبود کیلئے بھی ایکٹ منظور کئے گئے ہیں۔بیت المال نے 154 ’’ویمن ایمپاورمنٹ سنٹرز‘‘ بھی بنائے ہیں۔ جہاں انہیں سلائی، کڑھائی کشیدہ کاری اور کمپیوٹر کی تعلیم دی جائے گی۔  

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

حکومت کے معاشی و سیاسی چیلنجز

الیکشن اور حکومت سازی میں مشکلات کو عبور کرنے کے بعد مسلم لیگ (ن) کو اب حکومت چلانے میں نئی مشکلات کا سامنا ہے اور ان میں سب سے بڑا چیلنج ہے معاشی عدم استحکام اور بڑھتی ہوئی مہنگائی۔حال ہی میں ختم ہونے والے آئی ایم ایف پروگرام کی کڑی شرائط خصوصاً ًپٹرولیم، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بڑے اضافے نے مہنگائی میں جو اضافہ کیا ہے اس سے مہنگائی کے شعلے کچھ ایسے بے قابو ہوئے ہیں کہ یہ اب ہر سمت پھیلتے دکھائی دیتے ہیں، جبکہ ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے ایک اور آئی ایم ایف پروگرام ناگزیر قرار دیا جا رہا ہے ۔

حکومت مخالف تحریک اور حکومتی صف بندی

مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو بنے ہوئے ابھی دو ماہ ہی ہوئے ہیں اور حکومت خود کو ملک کے حالات کے تناظر میں سنبھالنے کی کوشش کررہی ہے مگر اس کو مختلف محاذوں پر مختلف نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے ۔

الزامات لگاتے رہو،کام نہ کرو!

سندھ کی سیاست بڑی عجیب ہے، یہاں ایک دوسرے پر الزامات اور پھر جوابی الزامات کا تسلسل چلتا رہتا ہے۔ اگر نہیں چلتی تو عوام کی نہیں چلتی۔ وہ چلاتے رہیں، روتے رہیں، ان کی پکار سننے والا کوئی نہیں ہوتا۔ پیپلز پارٹی میں البتہ ایک صلاحیت دوسری تمام سیاسی جماعتوں سے زیادہ ہے، اور وہ یہ کہ کم از کم عوام کو بولنے کا موقع تو دیتی ہے۔ شاید وہ اس مقولے پر عمل کرتی ہے کہ بولنے سے دل کا بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے، اور عوام بھی تھک ہار کر ایک بار پھر مہنگائی اور مظالم کا سامنا کرنے کیلئے خود کو تیار کرلیتے ہیں۔ پہلے بات کرتے ہیں سیاست کی۔

خیبر پختونخوا کے دوہرے مسائل

خیبرپختونخوا اس وقت بارشوں،مہنگائی، چوری رہزنی اور بدامنی کی زد میں ہے ۔حالات ہیں کہ آئے روز بگڑتے چلے جارہے ہیں۔

بلوچستان،صوبائی کابینہ کی تشکیل کب ہو گی ؟

آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد خیال کیا جارہا تھا کہ صوبائی حکومت اور کابینہ کی تشکیل تین ہفتوں تک کردی جائے گی اور انتخابات کی وجہ سے التوا کا شکار ہونے والے منصوبوں پر کام کا آغاز کردیا جائے گا مگر دو ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود صوبے میں اب تک صوبائی اسمبلی کے تعارفی اجلاس اور وزیر اعلیٰ کے حلف اٹھانے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہوسکا۔

آزادکشمیر حکومت کی ایک سالہ کارکردگی

20 اپریل کو آزاد جموں وکشمیر کی اتحادی حکومت کا ایک سال مکمل ہوجائے گا۔ گزشتہ سال آزاد جموں وکشمیر ہائی کورٹ کی طرف سے سابق وزیر اعظم سردار تنویر الیاس کو نا اہل قرار دیا گیا تو مسلم لیگ (ن) ، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے فارورڈ بلاک کے ارکان نے مشترکہ طور پر چوہدری انوار الحق کو وزیر اعظم بنالیا جو اُس وقت آزاد جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی کے سپیکر تھے۔ حلف اٹھانے کے بعد چوہدری انوار الحق نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ آزاد کشمیر میں تعمیر وترقی، اچھی حکمرانی ، میرٹ کی بالادستی اور کرپشن کے خلاف مؤثر کارروائی کی عملی کوشش کریں گے۔