شعور عبادت
بلاشبہ ’’اللہ‘‘ اور ’’مخلوق‘‘ کا باہمی تعلق ’’محبت‘‘ سے ہے‘ محبت سے عبادت کا شعور پیدا ہوتاہے اسی لیے ساری مخلوقات نوری‘ ناری‘ خاکی‘ حیوانی‘جماداتی‘نباتاتی‘آبی اور ہوائی‘ ہر ایک کو شرف عبادت سے نوازا گیا‘ جو خالق کے ساتھ اظہار محبت ہے۔ معبود کا رشتہ عبد کے ساتھ اور عبد کا رشتہ معبود کے ساتھ محبت اور عبادت سے قائم ہے۔ اسی لیے کائنات کی ہر شئے ہر وقت مصروف عبادت ہے‘ محبت میں گم مصروف گیان ہے‘ امن میں اور خوش ہے۔ گیان اور دھیان کیلئے امن شرط ہے جو ایمان سے نصیب ہوتا ہے۔
انسان اشرف المخلوقات ہے جس کیلئے ضروری ہے کہ وہ سب مخلوقات سے بڑھ کر اپنے خالق سے محبت کرے ‘ٹوٹ کر اس کی عبادت کرے کیونکہ دیگر مخلوقات کے مقابلے میں اسے محبت اور عبادت کا زیادہ علم دیا گیا ہے اور اس کو صاحب ارادہ بنایا گیا ہے۔ جہاں ایمان اور علم زیادہ ہو گا وہاں خالق کی معرفت اتنی ہی زیادہ ہو گی‘ مالک کا خوف ہو گا‘ یہ خوف انتہائے محبت سے ہوتا ہے کہ کہیں محبوب ناراض نہ ہو جائے۔ تخلیق انسانی میں انس کا مادہ وافر ہے‘ مومن کو تمام انسانوں میں زیادہ فضیلت سے نوازا گیا‘ اسے ایمان کی سند عطا کی گئی‘ اس کے سر کو خالق نے صرف اپنے سامنے خم ہونے کا اعزاز بخشا اور اسے سر تسلیم خم کرنے کی ادا ئے دلنواز بخشی‘ اسے اپنی مرضی کے مطابق عمل کی توفیق سے نوازا اور مسلمان کا لقب عطا فرمایا تا کہ اس کے ہاتھوں سب مخلوقات کو سلامتی اور امن نصیب ہو۔مخلوقات عالم کی تمام عبادات کو ملا کر اسے ارکان اسلام کی ایسے حسین اورپاکیزہ عبادات سے نوازاکہ جب عبد‘ عبادت کرے تو اس کے اعضاء و جوارح اور قلب و ذہن ایک لاہوتی وجدانی کیفیت سے سر شار ہو کر حسن و احسان کی دنیا میں صرف معبود حقیقی کو اپنے سامنے پائیں اور معبودایسا محسن بن جائے کہ اپنے احسان سے محبّ کو حسین سے حسین تر بناتا چلا جائے۔
اللہ عزّوجل کی حسین ترین عبادات میں ایک حسین عبادت ’’حج‘‘ ہے ارکان اسلام کا پانچواں رکن مجموعہ عبادات حج ایک ایسی عالمگیر اور ہمہ گیر عبادت ہے کہ جس میں توحید کے وجد آفرین نعرے‘ شہادت کے ترانے‘ نماز کی طہارت‘ روزہ کا تقویٰ‘ زکوٰۃ کا تزکیہ‘ باطن کا تصفیہ‘ جہاد کی مشقت‘ ریاضت جدوجہد اور سر شاری‘ صدقہ خیرات کی آسودگی‘ اور تلاش نقوش پائے جاناں کی بے تابیاں شامل ہوتی ہیں۔سفر حج ہزاروں اسفار کا مجموعہ‘ تہذیب‘ سلیقہ، شائستگی‘ احترام انسانیت‘ دعوت و تربیت‘ حکمت ،تعلیم و تعلم‘ درس و تدریس‘ سفر روح‘ قلب ماہیت‘ جذبہ و شوق‘ سفر نجات ،توبہ و استغفار‘ اصلاح جسم و نفس‘ تدارک امرض خبیثہ‘ سفر خوش بختی‘ اخلاص‘ مروت و ایثار‘ سفر وادیِٔ حسنِ جمال و جلال‘ سفر معیشت و اقتصادیات‘ سیاست‘ وحدت ملی‘ اجتماع مسلمین عالم‘ نصرت رسولؐ‘ اتباع و اطاعت نبیؐ‘ سفر دعائے رسولؐ‘ حاضری در محبوب‘ قبولیت توبہ و مغفرت‘ سفر ملاقات دوست‘ رازو نیاز بین عبدو معبود‘سفر خدا پرستی‘ تدارک تفرقہ و فرقہ پرستی‘ تقویت عقیدہ‘ تدارک خوف و غمِ جہالت‘ سفر خدمت خلق‘ محبت و اخوت‘ ترانۂ شوق‘ نعرۂ مستانہ‘ سفر اقبال و سعادت مندی‘ رسوائی ابلیس‘ اجتماع لاہوتی‘سفر سکون و قرارا ور نشاط مرکز کوثر رحمت ۔سفرِ حج بلاشبہ سفر جسم و قلب و روح ہے ہزاروں اسفار حیات و رحمت کو اللہ تعالیٰ نے ایک سفر استحسان میں سمو دیا ہے۔خوش بخت خوش نصیب اور خوش قسمت ہیں وہ مسلمان وہ غلامان نبی محتشمﷺکہ جنہیں رب تعالیٰ کی جانب سے اپنے در پہ حاضر ہونے کا بلاوا آتا ہے۔
این سعادت بز در با زونیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
قاعدہ یہ ہے کہ اعلیٰ مقامات کے حصول کے لیے اسی حساب سے زیادہ محنت‘ سعی اور جدو جہد کرنی لازم ہوتی ہے‘ بڑے مقاصد کے حصول کے لیے اسی قدر زیادہ تعلیم‘ علم‘ سمجھ اخلاص اور عمل کی ضرورت ہوتی ہے‘ با شعور لوگ اپنا کام سمجھ بوجھ سے کرتے ہیں‘ اہداف کا تعین کرتے ہیں اہداف کے حصول کیلئے باقاعدہ پروگرام بناتے ہیں‘ منصوبہ سازی کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فرمان اور ارشادات نبوی ؐکے مطابق اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں‘ ذرائع و وسائل اور اسباب کا مؤثر اور مفید استعمال اپنی بہترین صلاحیتوں سے کرتے ہیں‘ بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں‘ اس عملی امتحان میں زیادہ سے زیادہ نمبر حاصل کرنے کی جدوجہدکرتے ہیں تا کہ ’’مالک‘‘ اپنے غلام کے کام سے خوش ہو اور اسے انعام سے نوازے۔
بفضل رب جلیل اور بہ تصدق و توسل نبیٔ آخر الزماںﷺ مسلمانوں کے پاس حکمت و اسرارکی بہترین کتاب’’ قرآن حکیم‘‘ اسوۂ رسول اقدسﷺ اور سنت اصحابؓ موجود ہے۔جس کے مطالعہ، سمجھ اور ان میں درج احکامات پر عمل کرنے سے ہدف یعنی ’’رضائے الہٰی کا حصول‘‘ آسان ہو جاتا ہے۔ ہدف کے حصول کیلئے حج بھی ایک بہترین عمل اور عبادت ہے آئیے! اس حسین و جمیل عبادت فریضۂ حج کی ادائیگی کا پروگرام بنانے کے لیے اللہ تعالیٰ سے طلب توفیق کریں اور اس کی بارگاہ میں سرخروئی کی التجا کریں۔
ایک بات ہمیشہ ذہن نشین رہے کہ ہر اعلیٰ کام کی جتنی جزا‘صلہ ‘ثواب اور انعام ہوتا ہے اس کو انجام دینے کے لیے اسی قدر شوق‘ لگن‘علم‘محنت اور توجہکی ضرورت ہوتی ہے‘ اس کے مختلف کاموں کی قدم قدم اور لمحہ لمحہ نگرانی ضروری ہوتی ہے۔ اللہ کا کام ویسے بھی طلب احسا ن کا متقاضی ہوتا ہے ۔ ہر وقت احتیاط اور یہ فکر کہ ’’محبوب کہیں ناراض نہ ہو جائے‘‘طلب احسان کا سب سے ضروری تقاضا ہوتا ہے۔
دربار رسالت مآب ﷺکی حاضری: خوش قسمت ہوتے ہیں وہ افراد کہ جنہیں اس اثنا ء میں بار گاہ رسالت مآب سر کار دو عالمﷺ کی حاضری کا شرف نصیب ہو جائے۔
مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ
جبیں افسردہ افسردہ‘ قدم لغزیدہ لغزیدہ
چلاہوں ایک مجرم کی طرح میں جانب طیبہ
نظر شرمندہ شرمندہ‘ بدن لرزیدہ لرزیدہ
کہاں میں اور کہاں اس روضہ اقدس کا نظارہ!
نظر اس سمت اٹھتی ہے مگر دزدیدہ دزدیدہ
حضور عالی مرتبت نبی اکرم ﷺ کا ارشاد پاک ہے ’’ جس نے میری قبر (روضہ پاک) کی زیارت کی اس کیلئے میری شفاعت لازمی ہو گئی‘‘ ۔آپ ﷺنے فرمایا’’ جس نے میرے وصال کے بعد میری زیارت کی ایسا ہی ہے جیسا کہ اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی‘‘ ایک اور مقام پر آپؐ نے فرمایا ’’جس کو مدینے تک پہنچنے کی وسعت ہو اور وہ میری زیارت کو نہ آئے (یعنی صرف حج کر کے چلا جائے) اس نے میرے ساتھ بڑی بے مروتی کی‘‘ ۔